Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوقات پتہ چل گئی یا ابھی نہیں؟  

یہ ایسی جنگ ہے جس میں دشمن ننگی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ فوٹو اے ایف پی
دنیا کی کوئی بھی جنگ ہو ایک نہ ایک دن ختم ہو جاتی ہے اور دو جنگوں کے درمیان جو وقفہ آتا ہے اسے امن کہا جاتا ہے ۔اس وقفہِ امن میں آدھا وقت پچھلی جنگ سے پیدا ہونے والی تباہی کی کرچیاں چننے اور دوبارہ سے پاؤں پے کھڑا ہونے میں گزر جاتا ہے، اور باقی آدھا وقت ایک بار پھر طاقت کا گھمنڈ کمانے میں گزر جاتا ہے اور پھر یہی گھمنڈ بھوت کی طرح سر پہ سوار ہو جاتا ہے اور ایک اور نئی جنگ اس مفروضے پر شروع ہو جاتی ہے کہ پچھلی بار کی طرح ہم تباہ نہیں ہوں گے بلکہ سامنے والے کو تہس نہس کر دیں گے۔
پچھلی بار دشمن نے بائیں سے حملہ کیا تھا اب کی بار ضرور دائیں سے حملہ کرے گا مگر ہم خود کو تب تک اتنا ناقابلِ تسخیر بنا لیں گے کہ کسی مائی کے لال کو  ہمیں دوبارہ میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت نہیں ہو گی۔
پچھلی بار ہم اپنی شرافت اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی غفلت کے ہاتھوں مات کھا گئے پر اس بار ہم اپنی آنکھیں نہ صرف مسلسل  کھلی رکھیں گے بلکہ زمین سے خلا تک آنکھوں کا ایسا جال بچھا دیں گے کہ کوئی میزائل، کوئی طیارہ اس جال سے نہ گزر پائے گا۔
وائے افسوس کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے آج تک ہر ملک فرضی دشمن سے بچنے اور اپنے اندر کے خوف کو ختم کرنے کے لیے کھرب ہا ڈالر اپنے جیسے انسانوں کو مارنے پر ضائع کرتا رہا مگر اب جس دشمن سے پالا پڑا وہ نہ تو انسان ہے نہ  جانور بلکہ وہ تو ننگی آنکھ سے نظر تک نہیں آ رہا۔ اس پر توپ  کجا سبزی کاٹنے والی چھری تک کارگر نہیں۔ اسے ایک سوئی تک نہیں چبھوئی جا سکتی۔ اس دشمن کا نہ دایاں بایاں ہے، نہ اوپر نہ نیچے، نہ گہرا نہ اتھلا۔ نہ ناسا کی ہبل دوربین اسے تلاش کر پا رہی ہے نہ وہ مصنوعی سیارہ جو میری جیب میں پڑے کرنسی نوٹ کے رنگ کی بھی تصویر کھینچنے پر قادر ہے۔

جنگی ہتھیاروں کے حصول کے لیے کھربوں ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ فوٹو اےا یف پی

آپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرتے ہوئے کہا تھا نہ کہ دشمن اگر چوہے کے بل میں بھی چھپ گیا تو اسے پناہ نہیں ملے گی، تو لی جیے اب آ گیا ہے وہ ہشت گرد جو آپ کے ہاتھوں پر بیٹھا ہے۔ آپ کے پھیپھڑوں کی ناکہ بندی کر رہا ہے۔ آپ کے مسلح محافظوں کا حلقہ توڑ کر آپ کے حلق میں آن بیٹھا ہے۔ آپ کے سانس کی نالی پر قبضہ کر رہا ہے۔ کوئی بھی روایتی، جوہری یا کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے بغیر اس نہتے عدو  نے آپ کی معیشت کا تیاپانچہ کر کے سکھانے کے لیے الٹی گنتی کی الگنی پر ٹانگ دیا ہے۔ آپ  کے پاس جو ہزاروں ٹریلین ڈالرز پڑے ہیں ذرا ان سے اپنے حریف  کے ایک بھی سپاہی کو خرید کر دکھا دیجیے۔ جو زمین آپ نے میرے بچوں کے حال اور مستقبل کا قتلِ عام کر کے مجھ سے ہتھیائی ہے وہی زمین اس دشمن کو بطور ہرجانہ دے کر عارضی جنگ بندی پر راضی کر لیجیے۔
ہاں یہ دشمن بھی ایک دن واپس ہو جائے گا، یا آپ کی ہی ناک کے نیچے کہیں گوشہ نشین ہو جائے گا اور لمبی نیند اوڑھ  لے گا مگر اپنی شرائط پر اور پھر ایک روز دوبارہ  پلٹے گا اپنے ہی طے کردہ وقت پر، اپنی پسند کے میدان میں  کئی گنا وحشیانہ طاقت کے ساتھ۔
ہاں یہ دشمن اپنی بیرکوں کی جانب لوٹ جائے گا مگر جانے سے پہلے وہ آپ کی جبلی رعونت کو آپ ہی کے گلے میں ڈال کر جائے گا۔ آپ کی انا کا جوتا آپ ہی کے سر پر توڑ کے جائے گا۔ آپ کی جبلی لالچ کو آپ کے منہ میں ٹھونس کر جائے گا۔ آپ کی اکڑ کو دو ٹکے دھڑی کے نرخ پر نیلام کرتا ہوا جائے گا۔ آپ کی عیاریاں آپ ہی کے کانوں میں پگھلا کر انڈیلنے کے بعد رخصت ہو گا۔ آپ کی فاتحانہ ہوس کو نکیل میں ڈھال کر جائے گا۔

اٹلی میں تابوت لے جانے لے لیے فوجی ٹرک بلوانے پڑے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

آپ نے پچھلی دو ڈھائی صدیوں میں بالخصوص جو کچھ کمزوروں کے ساتھ کیا ، جنگلوں، چرندوں، پرندوں، دریاؤں، سمندروں کے ساتھ کیا، آپ نے جس طرح پہاڑوں کو رلانے کی کوشش کی، آپ نے جیسے بارہا آسمان پر تھوکنے کی جرات  کی، آپ نے جس طرح کرہ ارض، اس کی فضا اور اس فضا سے اوپر کے خلا  کی آہ اور بددعا سمیٹی، اس کا احتساب شروع ہو چکا ہے۔ ابھی تو سپاہِ قدرت کا ہراول دستہ ہی زمین پر اترا ہے اور آپ کی چیخیں نکل گئیں۔ اصل سپاہ تو ابھی راستے میں ہے۔
مگر یہ دشمن میری تمہاری طرح اندر سے چھوٹا، جھوٹا اور وعدے پامال کرنے والا نہیں۔ اس نے یلغار سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ اگر تم کوئی درخت ہو تو تمہیں امان ہے، چرند و پرند و درند و حشرات الارض ہو تو تمہیں امان  ہے۔ میری تم سے کوئی جنگ نہیں۔ صرف  انسان کو امان نہیں جو اپنی عقل کے نشے میں چور تم سب کا بقائی دشمن بن گیا۔
تو پھر دیکھو کہ سوائے انسان کے اس کرہِ ارض کی ہر روح  اور وجود آج محفوظ ہے۔ پہلی بار شکاری بند ہے اور شکار  بے فکری اور حیرت کے ساتھ اس سیارے  پر سب سے آخر میں اترنے والی چھچھوری مخلوق کی بے بسی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔

پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد چار ہزار تجاوز کر گئی ہے۔ فوٹو اے ایف ہی

ہاں تو کہاں ہیں تمہارے روبوٹ، تمہارے ریڈار، تمہارے آلات سراغرسانی، تمہارے ڈرونز، تمہاری مصنوعی ذہانت، تمہاری ڈیجیٹل شیخیاں، تمہاری محیرالعقول لیبارٹریاں، تمہارے زیرِ زمین سیسہ پلائے بنکر، تمہاری خفیہ سرنگیں اور دیگر سٹیٹ آف دی آرٹ  تحفظاتی و جارحیاتی ساز و سامان۔
 حتیٰ کہ مناجات بھی کام نہیں آ رہیں۔ کام آئیں بھی تو کیسے؟  کہا گیا تھا نا تم سے ہزار بار تکرار و اصرار کے ساتھ کہ اعمال  کے اجر کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے مگر تم نے فرض کر لیا کہ تم تو دائمی لاڈلے ہو۔ تمہارے لیے توبہ کا دروازہ  کبھی بند نہ ہو گا۔
ہاں دروازہ اب بھی کھلا  ہے مگر ہر بار کے برعکس  شاید پہلی بار تمہارے علاوہ کرہِ ارض کے ہر مکین کی تم سے پہلے سنی جا رہی ہے۔ فی الحال اپنی باری کا انتظار کرو اور قطار میں چپ چاپ سب سے آخر میں کھڑے ہو جاؤ۔ شاید کچھ بات بن جائے مگر  کوئی ضمانت بھی نہیں۔ 
 

شیئر: