Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گندم کی بین الاضلاعی ترسیل پر پابندی

دفعہ ایک 144 کے تحت یہ پابندی ایک ماہ تک قائم رہے گی (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان حکومت نے سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے پیش نظر گندم کی ایک ضلعے سے دوسرے ضلعے ترسیل پر پابندی عائد کر دی ہے۔
محکمہ داخلہ و قبائلی امور بلوچستان کے اعلامیہ کے مطابق دفعہ ایک 144 کے تحت یہ پابندی ایک ماہ تک قائم رہے گی۔ اس دوران صوبے کے ایک ضلعے سے گندم دوسرے ضلع لے جانے پر پابندی ہوگی۔ 
خیال رہے کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں گندم کی فصل تیار ہوگئی ہے اور اس کی کٹائی کا عمل جاری ہے۔ محکمہ خوراک بلوچستان کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا ہے کہ 'سمگلرز اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا مافیا ہر سال فصل تیار ہونے کے بعد بھاری مقدار میں گندم خرید کر ذخیرہ کر لیتا ہے، جس کی وجہ سے پاسکو اور بلوچستان حکومت کو گندم کی خریداری کا ہدف پورا کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'یہی مافیا بعد میں ذخیرہ کی گئی گندم افغانستان بھی سمگل کرتا ہے جس کی وجہ سے قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ گذشتہ سال بھی خریداری کا ہدف مکمل نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں دسمبر اور جنوری میں گندم کی قیمتیں غیر مستحکم ہوگئی تھیں۔ 50 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1800روپے سے بڑھ کر 2800 روپے تک پہنچ گئی تھی۔ 

ذخیرہ اندوزی سے گندم کی خریداری کا ہدف پورا کرنے میں مشکل ہوتی ہے (فوٹو: اے یف پی)

محکمہ خوراک کے آفیسر کے مطابق اس سال کورونا کی وجہ سے غذائی بحران کے خدشات بڑھ گئے ہیں اس لیے حکومت نے گندم کی خریداری کا عمل شروع ہوتے ہی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی سے بچنے کے لیے یہ پابندی عائد کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے دس لاکھ بوری گندم خریدنے کا ہدف مقرر کیا ہے اور حکومت کی خواہش ہے کہ یہ خریداری اپنے صوبے سے ہی کی جائے۔
وفاق کا بھی پاسکو کے ذریعے بلوچستان سے دس لاکھ بوری گندم خریدنے کا ہدف ہے۔ اس کے علاوہ صوبے کے 36 مل مالکان بھی اپنی ضروریات کے مطابق گندم خریدتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ محکمہ زراعت بلوچستان نے ڈیرہ بگٹی، نصیرآباد، جعفرآباد، جھل مگسی، سبی اور خاران سمیت بلوچستان میں مجموعی طور پر گندم کی پیداوار کا تخمینہ 97 لاکھ بوری لگایا ہے جبکہ صوبے میں گندم کی سالانہ طلب ایک کروڑ بوری سے زائد ہے۔ اگر گندم کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی نہ روکی گئی تو طلب اور رسد میں مزید فرق پیدا ہو جائے گا اور پھر گندم اور آٹے کی قیمتیں غیر مستحکم ہوجائیں گی۔ 

بلوچستان میں گندم کی سالانہ طلب ایک کروڑ بوری سے زائد ہے (فوٹو: اے ایف پی)

بلوچستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین حاجی عبدالواحد بڑیچ نے بتایا کہ 'حکومت نے فیصلہ کرنے سے قبل فلور ملز مالکان کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔'
انہوں نے کہا کہ 'پنجاب اور سندھ حکومت نے پہلے ہی صوبے سے باہر گندم لے جانے پر پابندی عائد کی ہے، اگر ہمیں اپنے صوبے سے بھی گندم نہیں ملے گی تو مارکیٹ کے ساتھ ساتھ حکومت اور مخیر حضرات کی جانب سے راشن پروگرام کے لیے بھی آٹے کی فراہمی متاثر ہوگی۔'

شیئر: