Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 ایسی رفتار کہ اللہ کی پناہ!

کورونا کی وجہ سے دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئیں (فوٹو: اے ایف پی)
کئی عشرے بیت جاتے ہیں اور کچھ بھی نہیں ہوتا اور پھر چند ایسے ہفتے آتے ہیں جن میں کئی عشرے سمٹ جاتے ہیں (لینن)۔
ویسے تو ہر نسل کو یہ کہنے کا حق ہے کہ وہ پچھلی تمام نسلوں سے زیادہ گردشِ افلاک دیکھ چکی  ہے، مگر یہ تعلی نہیں حقیقت ہے کہ میری نسل نے پچھلی نصف صدی میں جتنی تیز رفتار تبدیلیاں دیکھی ہیں ایسی نصف صدی پہلے کبھی نہیں گزری۔
جب میں 58 برس پہلے پیدا ہوا تو اس وقت اطلاعات کی ترسیل کے دو ذرائع تھے۔ اخبار اور ریڈیو۔ جب ہوش سنبھالا تو ٹیلی ویژن گھروں میں چار پاؤں پسارنے لگا۔ ایریل اور تار والے ریڈیو کی جگہ ٹرانزسٹر نے لے لی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی رنگین ہو گیا اور سنیما وی سی آر کی شکل میں ہماری خواب گاہوں میں در آیا ۔ سپول والا جرمن ٹیپ ریکارڈر جاپانی کیسٹ پلیئر سے شرما گیا۔ ٹیلی فون امرا کی لگژری تھی جسے غریب آدمی دور دور سے تکتا تھا۔ فوری چھٹی تار کی شکل میں بھیجی جاتی تھی۔ پھر ایک روز اسی تار گھر کو فیکس مشین نے فارغ کر دیا اور فیکس کو ای میل نے چلتا کر دیا۔ دستاویزات کی نقول بنانے کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ کیمرے سے اہم دستاویزات کے فوٹو کھینچے جاتے تھے مگر فوٹو سٹیٹ مشین نے یہ مسئلہ بھی چٹ پٹ حل کر دیا۔

 

پھر دیکھتے ہی دیکھتے کمپیوٹر متعارف ہو گیا اور 80 کی دہائی کے وسط میں کمپیوٹر تک عام آدمی کی رسائی ہو گئی ۔ کمپوزنگ اور پروگرامنگ کی نئی نوکریاں متعارف ہونے لگیں۔
نصف صدی پہلے عام آدمی یا تو لاری یا پھر ٹرین سے سفر کرتا تھا۔ پاسپورٹ صرف حج کے لیے بنتا تھا۔ انٹرنیشنل پاسپورٹ صرف سفارت کاروں یا سرکاری عمل داروں، تاجروں اور صنعت کاروں وغیرہ کو جاری کیا جاتا تھا اور اس کے لیے بھی سی آئی ڈی والا کلیئرنس دیتا تھا ۔ پھر یہ جادوئی دستاویز بھی ٹکے سیر ہو گئی۔ پاسپورٹ نے مزدور کے لیے ’باہرلے ملک‘ کا دروازہ کھول دیا اور ہماری روزمرہ زندگی میں دبئی چلو داخل ہو گیا۔
50 برس پہلے جو بچہ برطانیہ یا امریکہ پڑھنے کے لئے جاتا تھا اس کی تصویر اخبار میں چھپتی تھی اور نیچے کیپشن لکھا جاتا ’محمد بوٹا اعلٰی تعلیم کے لیے لندن روانہ ہو گئے‘۔ پھر وہ وقت بھی آ گیا جب کراچی سے ٹنڈو آدم جانے سے کہیں زیادہ دبئی اور لندن تک کا سفر آسان ہو گیا۔

کورونا کے باعث لوگوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں اور ہاتھ نہیں ملاتے (فوٹو: اے ایف پی)

دیکھتے ہی دیکھتے سوئی کی نوک تلے اٹکنے والے کالے ریکارڈ  کو کیسٹ نے، کیسٹ کو سی ڈی نے، ویڈیو کیسٹ کو ڈی وی ڈی نے اور ان دونوں کو یو ایس بی نے اور یو ایس بی کو مائیکرو چپ نے کھا لیا۔ ٹیلی فون کو بنا تار والے کیلے کے سائز کے نوکیا نے اور اینالوگ نوکیا کو ڈیجیٹل فون نے ڈکار لیا۔
اکاؤنٹس کے زیرِ استعمال مین فریم کمپیوٹرز کو ٹی وی کے سائز کے ڈیسک ٹاپ نے، ڈیسک ٹاپ کو لیپ ٹاپ نے، لیپ ٹاپ کو ٹیبلٹ نے اور ٹیبلٹ کو آئی فون نے دھکے دے کر نکال دیا، اور پھر ٹی وی، ریڈیو، انٹرنیٹ، یوٹیلٹی بلز، ٹیکس، ریستوران اور ہر طرح کی مصنوعات کو مصنوعی ذہانت سے مسلح ڈیجیٹل ایپس نے آن لائن شاپنگ کی درفنتنی کا غلام بنا دیا ۔ ٹرنک کال کو وٹس ایپ نے اور خط  کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ہڑپ کر لیا۔
سمارٹ ایپ، سمارٹ بم، سمارٹ ڈرون، سمارٹ کریڈٹ کارڈ، سمارٹ شناختی کارڈ اور سمارٹ لاک ڈاؤن سمیت میری نسل نے ہر ممکن ارتقائی تبدیلیاں اس نصف صدی میں دیکھ لیں جنہیں میرے پرکھے جیتے جی دیکھنا تو درکنار تصور کرنے سے بھی عاری تھے۔

فضائی کمپنیاں اربوں ڈالر کے ریونیو سے محروم ہو گئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

نصف صدی پہلے عام لوگ دل کے دورے ، ٹی بی ، ہیضے، اسہال ، چیچک، بھک مری یا بہت ہی عیاشی کا موڈ ہوا تو کینسر سے مر جاتے تھے۔
جب سے جراثیم کو وائرس نے معزول کیا ہے اور ایکسرے اور کالے شربت کی جگہ سی ٹی سکین، انجیو پلاسٹی ، انجیو گرافی، ٹرانسپلانٹیشن ، اکیوٹ ڈیفی شینسی سنڈروم، سٹننگ ، کی ہول سرجری ، سٹنٹ، فزیو تھراپی، جینیٹک موڈیفکیشن جیسی کانوں کو بھلے لگنے والی اصطلاحات نے لی ہے تب سے پولیو، کوڑھ ، عرق النسا ، گل گھوٹو ، گردن توڑ بخار، دست، پیٹ کے کیڑے، آنتوں کی سوزش ، بواسیر، آتشک، سوزاک، پتھری وغیرہ جیسی اجڈ بیماریاں آؤٹ آف فیشن ہو چکی ہیں ۔ اب ڈیپریشن، انگزائیٹی ، پی ٹی ایس ڈی، ٹیومر، ایچ آئی وی ، سوائن فلو ، سارس اور کوویڈ نائنٹین کا زمانہ ہے۔
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اقدار بدل گئیں۔ کھلا دودھ اور  نلکے کا پانی صحت کا دشمن اور ٹیٹرا پیک اور منرل واٹر صحت بخش ہو گیا۔ دیسی گھی گنوار اور کوکنگ آئل مہذب ہو گیا ۔ ہر کش سکون بخش ٹائپ سگریٹ فیشن سٹیٹ منٹ کی مسند سے اتر کر بیماریوں کی جھونپڑ پٹی میں جا بسی ۔ کولڈ ڈرنک امارت کی نشانی کے بجائے ذیابطیس کی تائی کہلانے لگی۔

 ترقی یافتہ ملکوں میں بھی وائرس کے باعث کاروبار زندگی معطل ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ابھی دو مہینے پہلے تک گلے ملنا خلوص کی نشانی تھی۔ آج گلے ملنے اور گلے پڑنے کا فرق مٹ گیا۔ کل تک ہاتھ نہ ملانے والے کو مغرور سمجھا جاتا تھا۔ آج جو ہاتھ ملانے کی کوشش کرے اسے جاہل سمجھا جاتا ہے۔ پہلے ماسک لگا کر کسی دکان یا گھر میں داخل ہونے والے کو ڈاکو خیال کیا جاتا تھا آج ماسک نہ لگا کر گھومنا غیر ذمہ دار شہری ہونے کی دلیل ہے۔ کل تک جو محفل میں شریک ہونے کے بجائے دور دور کھڑا محفل کا لطف لیتا رہتا اسے آدم بیزار کہا جاتا تھا۔ آج وہ زمانہ ہے کہ جو چھ فٹ دور کھڑا ہو کر بات نہ کرے اسے عقل سے پیدل تصور کیا جاتا ہے۔
چند دن پہلے تک یہ مقولہ سچا ہوا کرتا تھا ’جان (صحت) ہے تو جہان ہے‘۔ آج یہ مقولہ بھی الٹ کے یوں ہوگیا  کہ جہان (معیشت) ہے تو جان ہے۔
اب کوئی بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہوش سنبھالنے سے اب تک جو ہوش ربا تبدیلیاں آئی ہیں اور جس رفتار سے برسوں کی کہانی دنوں میں سمٹ رہی ہے کیا پچھلی کسی نصف صدی کو ایسی برق رفتاری نصیب ہوئی؟ اب تو شہرِ آشوب میں کہے گئے ایسے اشعار کا مطلب بھی بے مطلب ہو گیا۔
عمر باقی ہے اے دلِ بیزار
ایسی عجلت میں روز و شب نہ گزار
تو نے دیکھا کہ سب ہی گرد ہوئے
تیز رفتار ہوں کہ کج رفتار ( احمد نوید )

شیئر: