Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم

پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا ہے۔
عدالت نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے قاضی فائز عیسیٰ کو بھیجا گیا شوکاز نوٹس بھی کالعدم قرار دیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس پر کاروائی روکنے کے لیے دائر آئینی درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد دس رکنی بینچ نے فیصلہ جمعہ کی دوپہر کو محفوظ کیا تھا۔
 
 
جمعہ کی سہ پہر عدالت نے مقدمے کا مختصر فیصلہ سنا دیا۔ مختصر فیصلہ سنانے سے پہلے بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے آیت کریمہ تلاوت کی۔
عدالتی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر فریقین کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالت ریفرنس نمبر ایک 2019 کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دیتی ہے۔
درخواست گزار کو 17 اگست 2019 کو جاری نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔ فیصلے کے سات روز کے اندر ان لینڈ ریونیو کمشنر خود متعلقہ نوٹسز قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کو جاری کریں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر نوٹسز میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں سے برطانیہ میں خریدی جائیدادوں کے ذرائع آمدن پوچھے۔ یہ نوٹسز جسٹس قاضی فائز عیسی کی سرکاری رہائش گاہ پر بھیجے جائیں۔ ہر جائیداد کا الگ سے نوٹس جاری کیا جائے۔
 ایف بی آر کے نوٹسز پر جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے  متعلقہ تفصیلات پر جواب دیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ دستاویزی ریکارڈ کے ساتھ ایف بی آر کو جواب دیے جائیں۔
’اگر کوئی ریکارڈ پاکستان سے باہر کا کہا ہے تو متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بروقت فراہم کریں‘
انکم ٹیکس کمشنر اپنی کاروائی میں کسی موقع پر التوا نہ دے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کے پاس فیصلہ کرنے کیلئے 60 روز کا وقت ہے اور وہ 75 روز کے اندر اندر فیصلے سے رجسٹرار کو آگاہ کرے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ بطور سیکرٹری رپورٹ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل کو پیش کریں گے۔  100 روز میں تحقیقات مکمل نہ ہوئیں تو ایف بی آر  سیکرٹری جوڈیشل کونسل کو وضاحت دینے کے پابند ہوں گے۔

عدالت نے حکم دیا کہ اگر کوئی ریکارڈ پاکستان سے باہر کا کہا ہے تو متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بروقت فراہم کریں (فوٹو: ٹوئٹر)
 

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایف بی آر کی تحقیقات کے بعد اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کوئی کارروائی بنتی ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل اس کا اختیار رکھتی ہے۔
عدالت نے کہاہے کہ اگرچہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی اس فیصلے کے تحت ختم ہو چکی ہے تاہم عدالتی فیصلے سے کسی فریق کا اپیل کا حق متاثر نہیں ہوگا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ قاضی فائز عیسی کے اہل خانہ میں سے کسی فرد کے بیرون ملک ہونے کی بنیاد پر کارروائی میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔
جواب موصول ہونے پر کمشنر ان لینڈ ریونیو اہل خانہ کو ذاتی طور پر سنیں گے۔  ’قاضی فائز عیسی کے اہل خانہ اگر ٹیکس کمشنر کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے تو وہ قانون کے مطابق اپیل کریں گے۔‘
مزید کہا گیا ہے کہ اہل خانہ کی ٹیکس کمشنر کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی پر اثر انداز نہیں ہوگی۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی تاہم انھوں پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار کونسل اور دیگر درخواستوں ہر ریفرنس کالعدم قرار دیا۔

سپریم کورٹ بار  کے علاوہ دیگر وکلا تنظیموں نے بھی ریفرنس کو چیلینج کیا تھا (فوٹو: ٹوئٹر)

10 رکنی بینچ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے حلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا تاہم تین ججز یحییٰ آفریدی، منصور علی شاہ اور مقبول باقر نے اپنے اضافی نوٹ میں معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کی مخالفت کی اور اضافی نوٹ لکھا۔
جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ گذشتہ سال مئی میں اس وقت شروع ہوا جب ان کے خلاف صدراتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا گیا۔ ریفرنس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام پر ہیں۔
اس معاملے پر مئی سے اگست 2019 کے درمیان سپریم جوڈیشل کونسل کی تین سماعتیں ہوئی ہیں۔ اگست میں جسٹس عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی۔ انھوں نے موقف اپنایا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں پر غیر قانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کا غلط استعمال کرکے جاسوسی کی گئی۔
 پاکستان بار کونسل سمیت دیگرصوبوں کی بار کونسلز نے بھی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستیں دائر کی اور جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف جاری جوڈیشل ریفرنس کی کارروائی روکنے کی استدعا کی۔
ابتدا میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف دو ریفرنس دائر ہوئے تھے۔
ایک صدر مملکت کا بذریعہ وزارت قانون، جس میں اہلیہ کی جائداد چھپانے کا الزام لگایا گیا جبکہ دوسرا ریفرنس لاہور کے ایک وکیل وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جس میں جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے ریفرنس کے جواب میں صدر کو لکھے خطوط کو بنیاد بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے مسز فائز عیسیٰ کی جانب سے جمعرات کو دکھائی گئی دستاویزات عدالت میں جمع کرا دیں (فوٹو: ٹوئٹر)

سپریم جوڈیشل کونسل نے وکیل کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس کو اگست میں خارج کر دیا تھا۔
تاہم صدارتی ریفرنس پر کاروائی سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ کے فیصلے تک روک دی گئی۔
20 ستمبر 2019 کو اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے لیے نیا 10 رکنی فل کورٹ تشکیل دے دیا۔
10 رکنی بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے 24 ستمبر کو پہلی سماعت کی۔
اس سے قبل 17 ستمبر کو سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والا عدالت عظمیٰ کا 7 رکنی بینچ، ججز پر اعتراض کے بعد تحلیل کر دیا تھا  اور نئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیج دیا تھا۔
اس بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس طارق مسعود، جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل شامل تھے۔
قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کی جانب سے ججز پر اعتراض اٹھایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ 'جن ججز نے چیف جسٹس بننا ہے، ان کی دلچسپی ہے۔ اس بینچ کے دو جز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گیے اور ان دو ججز کا براہ راست مفاد ہے۔‘
اس دس رکنی فل کورٹ نے کل 46 سماعتیں کیں جس کے دوران 20 فروری 2020 کو اٹارنی جنرل انور منصور خان مستعفی ہوگئے۔ 22 فروری2020 کو خالد جاوید خان نئے اٹارنی جنرل تعینات کیے گئے تاہم انھوں نے کیس میں حکومت کی نمائندگی سے  معذرت کر لی۔ 
جس کی وجہ سے حکومت نے نیا وکیل کرنے کے لیے وقت مانگا اور بالآخر اس وقت کے وزیر قانون فروغ نسیم نے عہدہ چھوڑا اور حکومت کے وکیل بن گئے۔ منیر اے ملک نے 21 سماعتوں میں اپنے دلائل مکمل کیے۔

حامد خان نے سپریم کورٹ بار کی جانب سے دلائل دیے (فوٹو: فیس بک)

کورونا کی وجہ سے کیس تین ماہ سے زائد کے وقفے کے بعد 2 جون کو سماعت کے لیے مقرر ہوا اور فروغ نسیم نے نو سماعتوں میں اپنے دلائل مکمل کیے۔
جمعہ کو سماعت کے آخری دن منیر اے ملک نے جواب الجواب جب کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی کے وکیل حامد خان، سندھ بار ایسوسی ایشن کے وکیل رضا ربانی، پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل افتخار گیلانی نے اپنے دلائل مکمل کیے۔ جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو چار بجے سنایا گیا۔
جمعے کے دن کی سماعت کا احوال
قبل ازیں حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ایف بی آر کا ٹیکس ریکارڈ سربمہر لفافے میں پیش کر دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے مسز فائز عیسیٰ کی جانب سے گذشتہ روز  جمعرات کو دکھائی گئی دستاویزات عدالت میں جمع کرا دیں
جمعے کو سماعت کے دوران حکومتی وکیل فروغ نسیم نے دستاویزات جمع کرائیں تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے، نہ ہی اس پر آرڈر پاس کریں گے، معزز جج کی اہلیہ دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، اس کی تصدیق کروائیں۔
منیر اے ملک نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا۔ 'افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے، سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا۔ توقع ہے مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنا پڑے گی۔ جسٹس قاضی فائز نے اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں۔'

منیر اے ملک کے مطابق بغیر قانون سازی ریکوری یونٹ نہیں بن سکتا (فوٹو: اے ایف پی)

منیر اے ملک نے کہا کہ الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جواب دہ ہے۔ 'فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کردی۔ بدقسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔'
منیر اے ملک نے کہا کہ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی۔ ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا۔
انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔  فروغ نسیم نے کہا کہ ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے۔
'برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور ان کی برطرفی کا حوالہ دیا گیا۔ جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں۔ الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جواب دہ ہوتا ہے۔'
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کے جواب الجواب پر دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل میں کہا کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد بنانے کا حق دیتا ہے۔ انھوں نے عدالت میں سورہ النسا کی آیت کا حوالہ پیش کیا۔ 

رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہوئے تو سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیے اور کہا کہ تاثر دیا گیا کہ اے آر یو لیگل فورس ہے۔  حکومت کے مطابق وزیراعظم ادارہ بنا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم وزارت یا ڈویژن بنا سکتے ہیں۔ قواعد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں۔
رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو یونٹ کو لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں۔ نوٹی فیکیشن کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے۔ اے آر یو کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی۔'
رضا ربانی کے دلائل مکمل ہوتے ہی پشاور ہائی کورٹ بار کے وکیل افتخار گیلانی نے بھی دلائل دیے۔

شیئر: