Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آن لائن شاپنگ: 'الہ دین کے کپڑے ایسے ہوتے تھے'

کورونا وائرس کی صورتحال میں آن لائن خریداری پر انحصار بڑھا ہے (فوٹو: پکسابے)
آن لائن خریداری سہولت تو ہے ہی لیکن جب دکھایا کچھ اور بھیجا کچھ اور جائے تو یہ عجیب جھنجھلاہٹ کی وجہ بن جاتی ہے۔
انٹرنیٹ فورمز یا سوشل میڈیا پر گاہے گاہے ایسی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں جن میں صارفین ’آلو منگوانے اور گوبھی پہنچ جانے‘ جیسی صورت حال میں پھنسے ہونے کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔
آن لائن خریداری سے وابستہ مشکل کا شکار ایک صارف نے ایسے ہی مسئلے کی نشاندہی ایک ٹویٹ میں کی۔ ساتھ ہی منگوائے جانے والے سوٹ اور موصول ہونے والے سامان کا فرق بتاتی تصاویر شیئر کیں تو دیگر سوشل میڈیا صارفین بھی اپنے تجربات و مشاہدات شیئر کرنے لگے۔
شکایت سامنے لانے والی صارف نے فیس بک یوزر طوبیٰ ملک کا ایک سکرین شاٹ بھی شیئر کیا جس میں نمایاں طور پر وہ دوسروں کو اس دھوکے سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اب میں شکایت درج کرانے کے لیے فون کر رہی ہوں لیکن وہ جواب ہی نہیں دے رہے۔
 

ڈاکٹر عائشہ کے ہینڈل سے ٹویٹ کرنے والی صارف نے معاملے پر تبصرے میں لکھا کہ ’یہی دھوکہ میرے ساتھ بھی ہوا‘۔ ساتھ ہی انہوں نے اس پریشانی کا شکار افراد کو ممکنہ حل بتایا تو کہا کہ ’آپ کوریئر سروس سے بات کریں انہیں کہیں کہ غلط پارسل بھیجا گیا ہے، اسے واپس لیں اور آپ کو رقم لوٹائیں۔ میں نے بھی بہت سی ذلالت اور خواری کے بعد اپنی رقم پانے کے لیے ایسا ہی کیا تھا۔‘

آرڈر کیے گئے سامان کی جگہ غلط چیز ملنے کے باوجود فائدے میں رہنے کا تجربہ شیئر کرنے والے ایک صارف نے لکھا کہ ’مجھے بھی غلط چیز بھیجی گئیں البتہ انہوں نے مجھے وہ بھیجا جو مجھے منگوائی گئی شرٹ سے زیادہ پسند تھا۔ شاید میری قسمت اچھی تھی‘۔

سارہ نے معاملے کے ایک اور پہلو کی نشاندہی کی تو لکھا کہ ’میں نے دیکھا ہے کہ وہ دھوکہ دیتے ہیں اس لیے اپنے کمنٹس کو ڈیلیٹ کر دیتے ہیں یا محدود رکھتے ہیں‘۔

بوفے خور نامی ہینڈل نے آن لائن خریداری کے دوران دھوکے کا نشانہ بننے والوں کے رویے کو موضوع بنایا تو لکھا کہ ’میں جب بھی ایسا معاملہ دیکھوں تو ذہن میں آتا ہے کہ لوگ قانونی کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ کچھ واقعات میں قانونی نوٹس ہی معافی اور رقم کی واپسی کے لیے کافی ہوتا ہے‘۔

آن لائن تجارت سے وابستہ افراد کا عمل اور رویے موضوع بنے تو کاشف نے لکھا کہ ’یہ کاروبار کرنے والے دیانت اپنا کر دوسروں کی طرح ترقی کی راہ کیوں نہیں اپناتے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ آن لائن آرڈر کرنے والے بندر ہیں، وہ بول نہیں سکتے؟‘

نمرہ نعیم دھوکہ دہی سے بچنے کی ٹپ کے ساتھ سامنے آئیں تو تاکید کی کہ آرڈر کرنے سے قبل (سوشل میڈیا) گروپس میں رائے لیں۔

وجیہہ اس شکایت کے نتیجے میں خود محفوظ رہنے پر جذبہ شکر کے ساتھ گفتگو کا حصہ بنیں تو لکھا کہ ’میں کئی بار آرڈر کرنے کا سوچ چکی تھی لیکن آپ نے مجھے اس سے بچا لیا۔‘

احسان الحق اعوان نامی صارف نے چٹکلہ چھوڑا کہ 'عینک والا جن اور الہ دین کے کپڑے اسی طرح کے ہوتے تھے۔'

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی گذشتہ برس جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ای کامرس یا آن لائن خریداری کا سالانہ حجم 2018 میں 99 ارب روپے سالانہ سے زائد رہا، 2017 میں یہ تقریباً 52 ارب روپے تھا۔ آن لائن خریداری کرنے والوں کی بڑی تعداد تقریباً 60 فیصد کیش آن ڈیلیوری (سامان وصول ہونے پر ادائیگی) پر انحصار کرتی ہے جب کہ کچھ لوگ دیگر طریقوں کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی اور موبائل بینکنگ اکاؤنٹس کو بھی استعمال کرتے ہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: