سعودی فوٹو گرافر نے نصف صدی قبل اسلام کی مقدس مساجد کی منظر کشی کرکے دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں آباد لوگوں کو مسجد الحرام مکہ اور مسجد نبوی مدینہ کے قابل دید مقامات دیکھنے کا موقع مہیا کیا- یہ اس زمانے کی بات ہے جب اِکا دُکا کیمرے ہی کسی کے پاس ہوتے تھے۔
العربیہ نیٹ کے مطابق ڈاکٹر منیر احمد القاضی نے 60 برس قبل مقدس مساجد کی تصاویر کے ساتھ حج تحائف کا نیا تصور دیا۔
ڈاکٹر منیر احمد القاضی مدینہ کی قدیم تاریخ کے سب سے بڑے فوٹو گرافر بن گئے۔ آٹھویں اور نویں عشرے میں مدینہ کے زائرین کی یادیں ان کی تصاویر کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
القاضی نے مدینہ کے محلوں اور قابل دید مقامات کی دس ہزار کے لگ بھگ تصاویر ایسے دور میں بنائیں جبکہ مسجد نبوی میں فوٹو گرافی کا اجازت نامہ وزارت اطلاعات سے حاصل کرنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں مسجد نبوی میں کیمرہ لے جانا منع تھا۔
القاضی بتاتے ہیں کہ اجازت نامہ ملنے کے بعد کسی رکاوٹ کے بغیرتصاویر بنائیں- وہ عمارتوں کی چھتوں پر چڑھ کر مختلف زاویوں سے تصویریں بناتے تھے۔ انہوں نے 1963 میں تصاویر کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اب جبکہ سمارٹ موبائل کا رواج عام ہوگیا ہے اور ہرایک کو کیمرہ لے جانے کی اجازت ہے اس لیے اب انہوں نے اپنا یہ شوق ترک کردیا ہے۔
القاضی 1945 میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ مسجد نبوی کے پرانے باب النسا کے پاس مدرسہ علوم شریعہ میں پرائمری کی تعلیم حاصل کی اور عربی رسم الخط اپنے والد سے سیکھا-
انہوں نے بتایا کہ فوٹو گرافی سے ان کا رشتہ جرمنی سے اس وقت شروع ہوا جب وہ میڈیسن کی تعلیم کے لیے کلونیا یونیورسٹی گئے۔ چاہتے تھے کہ والد کے خرچ پر تعلیم حاصل کریں کیونکہ کنگ سعود یونیورسٹی سے سکالر شپ کم نمبروں کی وجہ سے نہیں مل سکا تھا-
جرمنی میں ایک دوست (ہینز) نے فوٹو گرافی کا فن سیکھنے کا مشورہ دیا۔
سعودی فوٹو گرافر نے بتایا کہ جرمنی کی نمائشوں میں مدینہ کی تاریخی تصاویر پیش کیں جنہیں پسند کیا گیا۔ پوسٹ کارڈ پر تصاویر زیارت، عمرہ اور حج پر آنے والوں میں یادگاری تحائف کی شکل اختیار کر گئیں۔
انہوںی نے جرمنی میں تعلیم کے دوران پیش آنے والے مسائل کا بھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ مختلف ملکوں میں پوسٹ کارڈ پر تاریخی مقامات کی تصاویر پیش کی جاتی ہیں اور انہیں پسند کیا جاتا ہے۔ یہیں سے ذہن مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی تصاویر والے پوسٹ کارڈ کی جانب گیا۔ یہ اچھی آمدنی کا ذریعہ بھی تھا۔ اس سے اچھے خاصے پیسے کمائے۔ پیشہ وارانہ کیمرے خریدے۔ تصاویر لینے کے لیے گاڑی حاصل کی وگرنہ اس سے قبل پیدل چلنا پڑتا تھا۔ شروعات ایک ہزار پوسٹ کارڈ چھاپ کر کی۔ ایک پوسٹ کارڈ 50 ھللہ میں فروخت کیا۔ دکاندار دگنی قیمت پر فروخت کرتے تھے۔
ڈاکٹر منیر کا کہنا ہے کہ پوسٹ کارڈ چونکہ پوری دنیا میں جاتے تھے لہٰذا میں نے محسوس کیا کہ حج، عمرہ اور زیارت پر آنے والے پوسٹ کارڈ اور دیواری کاغذ والی تصاویر زیادہ خریدتے ہیں۔ اس لیے ان میں بھی دلچسپی لی۔