Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'آج اچھی فلمیں بن رہی ہیں، ان میں ڈرامے کا رنگ بالکل نہیں'

’اچانک فلمی صنعت کی بحالی نہیں ہو سکتی ابھی بہت وقت لگے گا۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)
معروف فلم ڈائریکٹر اور رائٹر سید نور کہتے ہیں کہ خوبیاں خامیاں ہر فلم میں ہوتی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی فلم بنتی ہے تو وہ سو فیصد ٹھیک نہیں ہوتی، لہٰذا آج ہمارے ہاں جو فلم بن رہی ہے وہ اچھی ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’فلموں کے حوالے سے اچھی کوشش ہورہی ہے وقت کے ساتھ ساتھ کوتاہیاں دور ہوتی جائیں گی، جو لوگ انہیں بنا رہے ہیں وہ فلم انڈسٹری کا حصہ ہیں، ہم ان کے کام کو سراہتے ہیں۔‘
سید نور اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں کہ آج کی فلم میں ڈرامے کا رنگ نظر آتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ڈرامے میں کام کر رہے ہیں وہی فلم میں بھی نظر آرہے ہیں، یوں دیکھنے والے نفسیاتی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ شاید وہ ڈرامے کی شکل دیکھ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔
'ڈرامہ لارجر دین لائف نہیں ہے فلم ہے، جو سوچا نہیں جا سکتا وہ فلم ہے۔ جو سوچا جا سکتا ہے وہ ڈرامہ ہے۔'
کہتے ہیں کہ ابھی تک جو بھی فلم ریلیز ہوئی ہے، انہوں نے دیکھی ہے اور وہ نئے لوگوں کے کام کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔
سید نور ایک آرٹ اکیڈمی بھی چلا رہے ہیں اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ان کی آرٹ اکیڈمی بہت زبردست چل رہی ہے کئی طالب علم فلم میکنگ پڑھ کر جا چکے ہیں۔
فلم میکنگ کے بہت سارے ڈیپارٹمنٹ ہوتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے استادوں سے بس سیکھ کر فلم بنانے لگ جاتے ہیں جب کہ ان کے استاد کو بھی فلم میکنگ کے تمام شعبوں سے آگاہی نہیں ہوتی؟
اس سوال کے جواب میں سید نور نے کہا کہ ’یہ تو سیکھنے والوں کو عقل کرنی چاہیے کہ وہ کس کے پاس کیا سیکھنے جا رہے ہیں جس آدمی کے پاس شعور ہو گا اور اسے علم ہو گا کہ اس نے کیا سیکھنا ہے اور کس کے پاس جانا ہے تو وہ صیح بندے کا انتخاب کرے گا۔‘
چند ایک فلمیں بن جانا فلمی صنعت کی بحالی ہے؟
اس سوال پر ان کا کہنا ہے کہ ’اچانک تو فلمی صنعت کی بحالی نہیں ہو سکتی ابھی بہت وقت لگے گا جس طرح سے اس کے زوال پذیز ہونے میں بیس سال لگے تھے تو یکدم فلم انڈسٹری بیٹھ تو نہیں گئی تھی نا۔‘
’فلم بنانا پرائیویٹ سیکٹر کا کام ہے فلم بنانے کے لئے بہت سارا پیسہ چاہیے ہوتا ہے اب کسی کاغذ پر تو فلم نہیں بنا جاتی نا، مجھے یاد ہے کہ ایک وقت تھا کہ جب سال میں ایک سو دس کے قریب فلمیں بنتی تھیں اب بھی اگر کوئی رسک لے پیسہ لگائے تو فلموں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔‘

'جو سوچا نہیں جا سکتا وہ فلم ہے جو سوچا جا سکتا ہے وہ ڈرامہ ہے۔' فوٹو: فیس بک

گجروں کی نمائندگی کرنے والی فلموں پہ بہت تنقید ہوتی رہی ہے فلمی صنعت کے زوال میں ایسی فلموں کو بھی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے، اس پرسید نور نے کہا کہ ’لوگوں کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے فلم کبھی بھی ذوال کا شکار نہیں ہوئی، سینما ذوال کا شکارہوا۔ اس کی وجہ گندے سینما تھے  ان کا ماحول تھا  جیسے ہی ملٹی پلیکسسز بنے لوگوں نے پھر سے فلمیں دیکھنا شروع کر دیں۔‘
’جہاں تک گجروں والی فلموں پر تنقید کی بات ہے تو اگر ایسی فلموں کو پسند نہیں کیا جاتا تھا تو پھر وہ چلتی کیوں تھیں؟ تنقید صرف وہ کرتے ہیں جن کے پاس کرنے کو کچھ ہے نہیں۔‘
پاکستان میں فلم میکرز کو ہمیشہ کن مشکلات کا سامنا رہا ہے؟
اس پر سید نور کہتے ہیں کہ’ یہاں فلم میکرز کو سب سے بڑی مشکل فنانس کی رہی ہے۔ چوڑیاں جسے پچپن لاکھ میں بنایا گیا تو اس دور میں بھی ہندوستان میں کروڑں میں فلم بنتی تھیں۔ اسی طرح سے آج ہماری فلم پانچ سے سات کروڑ میں بنتی ہے تو ہندوستان میں سو ڈیڑھ سو کروڑ میں بنتی ہے۔‘
’دوسرا بڑا مسسلہ یہ کہ ہمارے پاس وہ ٹیکنالوجی اور آلات نہیں تھے جو دنیا کے پاس تھے، ہم صرف پاکستان کے لیے فلم بناتے رہے۔‘
سید نور کا مطالبہ ہے کہ حکومت فلم انڈسٹری کی سرپرستی کرے۔
’ہر دور میں ہر گورنمنٹ کے پاس آرٹسٹ پرڈیوسرز جاتے رہے لیکن ہر گورنمنٹ نے صرف لالی پاپ ہی دیا، تاشقند ہو یا ایران ہر جگہ گورنمنٹ اپنی فلم انڈسٹری کو سپورٹ کرتی ہے، لیکن یہاں فلم انڈسٹر ی اور اس کے مسائل کو کبھی سنجیدہ لیا ہی نہیں گیا۔‘

'رخسانہ نوز اور صائمہ کا آپس میں بہت اچھا تعلق تھا۔' فوٹو: فیس بک

سید نور کا یہ بھی ماننا ہے کہ سینسر بورڈ نے بہت ہی پر اثر انداز میں کام کیا۔ اس نے کبھی کوئی فلم نہیں روکی لیکن سینسر بورڑ کے جو قوانین ہیں ان کے مطابق جو کٹنگ کرنا بنتی تھی وہ کی گئی۔
آپ پر بہت زیادہ تنقید ہوتی رہی کہ آپ ہر فلم میں صائمہ کو ہی مرکزی کردار میں کاسٹ کرتے رہے ہیں۔ صائمہ کی ہم عصر اداکارائیں بھی نجی محفلوں میں ایسی شکایت کرتی نظر آتی تھیں۔ آپ کا اس الزام پر کیا کہنا ہے؟
اس پر سید نور نے کہا کہ ’میں نے بہت ساری ہیروئینز کو متعارف کروایا، انہیں فلموں میں مرکزی کردار بھی دیے، جس کو جو رول سوٹ کرتا تھا اسی کو کاسٹ کرتا تھا۔ اب اگر میں صائمہ کو بھی کسی کردار کے لیے سائن کرتا تھا تو وہ کردار اسی کے لیے ہوتا تھا تو کرتا تھا نا۔‘
’میں نے کبھی کسی دوسری ہیروئین کو نظر انداز کرکے صائمہ کو کردار نہیں دیا تھا۔ میں نے اس دور کی سب ہیروئنز کے ساتھ کام کیا ریشم، ریما بہت بہترین اداکارائیں تھیں اسی طرح باقی بھی اچھا کام کررہی تھیں اس لیے میں ایسے الزامات اور تنقید کو سنجیدہ نہیں لیتا۔‘
فلم 'سرگم' کی یادوں کو اردونیوز کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے سید نور کا کہنا تھا کہ سرگم ایک میوزیکل فلم تھی اس میں ایسا ہیرو چاہیے تھا جو میوزک کو سمجھتا ہو حالانکہ ان دنوں بابرعلی کو بہت پسند کیا جا رہا تھا، ہر طرف اس کے چرچے تھے۔
’مجھے لوگوں نے کہا کہ بابر علی کو ہی اس کردار میں کاسٹ کریں لیکن میں نے نہیں کیا کیونکہ وہ اس کردار میں فٹ بیٹھتا نہیں تھا۔ ایک دن میری ملاقات عدنان سمیع خان سے ہوئی تو اس کو میں نے یہ فلم آفر کر دی پہلے تو وہ مذاق سمجھا لیکن پھر اس نے ہاں کر دی۔
’ہیروئین کے لیے زیبا بختیار کا انتخاب کیا۔ وہ ان دنوں بھارت میں تھیں میں وہاں اس کو سائن کرنے گیا۔ فلم میں سب نے بہت ہی محنت کیساتھ کام کیا۔ فلم ہٹ ہوئی تو عدنان سمیع اداکار بھی بن گئے اور گلوکار بھی بن گئے۔‘

سید نور ایک آرٹ اکیڈمی بھی چلا رہے ہیں. فوٹو: فیس بک

کامیابی کن اداکاروں کے سر چڑھ کر بولی؟ اس سوال کے جواب میں سید نور کہتے ہیں کہ ’میں نے سب کے ساتھ کام کیا بہت ساروں کو کامیابی میرے ساتھ کام کر کے ملی، لیکن اس کامیابی کے بعد بھی ان کو ہینڈل کرنا میرے لیے مشکل نہیں تھا نہ ہی کسی نے اپنی شہرت کی وجہ سے مجھے نخرے دکھائے۔‘
سید نور کہتے ہیں کہ ’رخسانہ نور نے صائمہ کے ساتھ ان کی شادی کو دل پہ لیا۔ ایسی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ رخسانہ اور صائمہ کا آپس میں بہت اچھا تعلق تھا۔ صائمہ رخسانہ کی گھر آنے پر بہت ہی خاطر مدارت بھی کرتی تھیں۔ رخسانہ نور اگر ان سے نالاں ہوتیں تو وہ کیوں آخری دم تک ان کے گھر میں رہتی رہیں۔‘
کہتے ہیں ان کے بچوں نے شروع میں صائمہ کو قبول نہیں کیا تھا، لیکن بعد میں سب ٹھیک ہو گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ان کی بیویوں نے انہیں تنگ رکھا ہوتا تو وہ اتنے پر سکون نظر نہ آتے۔
سنا ہے انجمن کو بھی صائمہ سے مسئلہ تھا اس میں کتنی صداقت ہے؟
اس سوال کے جواب میں سید نور بولے کہ ’ایسا کچھ نہیں تھا۔ انجمن اور صائمہ آج بھی ایک دوسرے ملتی ہیں۔ سیٹ پر بھی ان کا آپس میں کافی اچھا تعلق ہوتا تھا یہ لوگوں کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں کہ صائمہ کا فلاں سے بھی مسئلہ تھا فلاں سے بھی۔‘
’صائمہ کا انڈسٹری میں کبھی کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں رہا وہ بہت ہی عاجز خاتون تھیں اور ہیں یہی وجہ ہے کہ انڈسٹری آج تک ان کی عزت کرتی ہے۔ صائمہ انٹرویوز نہیں دیتیں یہ ان کا اپنا مزاج ہے وہ خاصی کم گو ہیں لیکن کیمرے کے سامنے وہ کیا کمال کھل کر اداکاری کرتی ہیں۔‘
انہوں نے اپنی آنے والی فلم 'باجرے دی راکھی' کے بارے میں بتایا کہ یہ رومینٹک پنجابی فلم ہے۔ آج پنجابی فلمیں نہیں بن رہی ہیں، انہیں لگا کہ رومینٹک پنجابی فلم کا کارنر خالی ہے تو باجرے دی راکھی شروع کر دی اس میں ٹک ٹاک سٹار جنت مرزا ،صائمہ ،شفقت چیمہ ،سٹیج کے بہترین اداکار کام کر رہے ہیں۔

شیئر: