Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مغلِ اعظم، تخلیہ

تاج محل اترپردیش میں ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
اب یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو آزاد ہوا میں سانس لینے اور وہ سب کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے جو وہ کرنا چاہے بشرطیکہ اس سے کسی کو بے وجہ تکلیف نہ پہنچے۔
اور اگر تکلیف پہنچتی بھی ہو تو پہنچا کرے، سب کو کون خوش کر سکا ہے۔ لیکن ایسے کاموں کی فہرست بھی لمبی ہے جو بغیر کسی کو تکلیف پہنچائے کیے جا سکتے ہیں۔
لیکن ان میں مزا کہاں آتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر وفاقی حکومت آج یہ اعلان کر دے کہ وسطی دلی اور وہاں پارلیمان سمیت موجود سرکاری عمارتوں کو یا تو نئی شکل دینے یا سرے سے دوبارہ تعمیر کرنے کا منصوبہ ترک کر دیا گیا ہے (سنٹرل وسٹا پراجیکٹ) تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
اور اگر ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا جائے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے حالات بہت خراب ہیں، پیسے کی قلت ہے، اور معیشت آزاد ہندوستان کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، اس لیے حکومت اس ’سنٹرل وسٹا‘ پراجیکٹ پر خرچ ہونے والے تقریباً تین ارب ڈالر 30 ہسپتال بنوانے پر صرف کرے گی تو لوگ خوشی سے کود پڑیں گے، ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ جو نریندر مودی اور ان کی حکومت سے ناراض ہیں، کہیں کہ دیکھو دانا حکمراں ایسے ہوتے ہیں، جہاں ضرورت ہو بیش قیمت وسائل وہیں خرچ کرتے ہیں، سوشل ڈسٹنسنگ کی وجہ سے اجلاس تو ہو نہیں پا رہے پھر پارلیمان کی نئی عمارت بنوانے کی کیا جلدی ہے؟ ہسپتال بن جائیں گے تو لوگوں کو علاج کے لیے ادھر ادھر نہیں بھٹکنا پڑے گا۔
اور حالات ٹھیک ہوتے ہی نئی عمارت بھی بن جائے گی اور انڈیا گیٹ کے آس پاس کے علاقوں کو اتنا حسین بنا دیا جائے گا کہ لوگ پیرس جانے کا خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیں گے بلکہ لوگ پیرس سے دلی آیا کریں گے اور آ کر بس ہوش ربا رہ جائیں گے کہ اب تک پیرس میں کیوں اپنا وقت برباد کر رہے تھے۔

انڈیا میں کروڑوں افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اور وہاں انہیں وہ لوگ بھی گھومتے ہوئے نظر آئیں گے جن کی نوکریاں چلی گئی ہیں یا کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔ وہ بھی صبح سے شام تک اور کیا کریں گے، اس لیے سوچیں گے کہ نئی عمارتیں اور خوبصورت پارکس دیکھنے لوگ باہر کی دنیا سے یہاں آتے ہیں اور ہم تو یہیں رہتے ہیں، آج کل وقت کی کمی بھی نہیں ہے، کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر باریک بینی سے ہر نئی عمارت کا نظارہ کر لیا جائے۔
لیکن یہ سب تبھی ممکن ہوگا جب بین الاقوامی پروازیں کھل جائیں گی جو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ مارچ سے بند پڑی ہیں۔ کچھ مخصوص زمروں میں آنے والے لوگوں کو سفر کی اجازت حاصل ہے لیکن سیاحوں کو نہیں۔ اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ ائرلائنز کی حالت زار کے بارے میں اخبارات میں خبریں بھی نظر آنا بند ہو گئی ہیں۔ وثوق سے کہنا تو مشکل ہے لیکن بہت سے جہاز اتنے عرصے سے خالی کھڑے ہیں کہ ان میں مکڑیوں نے فن تعمیر کے نمونوں کی نمائش کرنا شروع کر دیا ہوگا۔
تو اس حال میں ہے معیشت، باقی حکمراں جانیں انہیں تو یہ سب پہلے سے پتا ہوگا۔ اور ہاں، سیاحوں سے یاد آیا کہ آج کل مغل بادشاہ پھر خبروں میں ہیں حالانکہ جہاں تک ہمیں معلوم ہے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی کہانی اٹھارہ سنہ 1857 میں ختم ہوگئی تھی۔ اور سنا ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ وہ دو گز زمین کے لیے ترس گئے تھے۔
مغلوں نے ہندوستان آ کر جو خطا کی تھی اس کے لیے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ نے انہیں ابھی تک معاف نہیں کیا ہے۔

جیسے سنٹرل وسٹا پر حکومت 20 ہزار کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے اسی طرح شاہ جہاں نے تاج محل پر بہت پیسہ بہایا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

جیسے سنٹرل وسٹا پر حکومت 20 ہزار کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے اسی طرح شاہ جہاں نے تاج محل پر بہت پیسہ بہایا تھا، کہتے ہیں کہ اس وقت تقریباً تین سو کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس وقت لوگوں کو کہاں سمجھ میں آیا ہوگا کہ آگے چل کر تاج محل فن تعمیر کی ایک مثال بن جائے گا، اس وقت تو لگ ایسے ہی اعتراض کر رہے ہوں گے جیسے اب پارلیمان کی نئی عمارت پر کر رہے ہیں، جس پر آج کی کرنسی کے لحاظ سے تقریباً اتنی ہی لاگت آئِے گی جتنی تاج محل پر آئی تھی۔
بہر حال، نہ ہم سے تاج محل رکتا اور اور نہ سنٹرل وسٹا کا منصوبہ رکے گا۔
تاج محل اترپردیش میں ہے اور وہاں اب بی جے پی کی حکومت ہے۔ اور ایک مذہبی رہنما آدتیہ ناتھ ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اور وہ مانتے ہیں کہ تاج محل اور مغلوں سے منسوب کی جانے والی چیزیں غلامی کی علامت ہیں جن سے آزاد ہونے کا اب وقت آ گیا ہے۔ اس لیے تاج محل کے قریب ہی زیر تعمیر ایک میوزیم کا نام اب بدل کر مغلوں کے بجائے شواجی مہاراج سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ شواجی مہاراج مراٹھا تھے اور اورنگزیب کے زمانے میں انہوں نے مغلیہ سلطنت کے خلاف بغاوت کی تھی۔
لوگ پوچھ رہے ہیں کہ بھائی شواجی کے لیے میوزیم تو بننا چاہیے لیکن آگرہ میں کیوں؟ آگرہ سے ان کا کیا تعلق تھا؟ آدتیہ ناتھ ان باریکیوں میں نہیں پڑتے۔ وہ پہلے مغل سرائے ریلوے سٹیشن کا نام بدل چکے ہیں تو میوزیم کیا چیز ہے۔

'ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ جو نریندر مودی اور ان کی حکومت سے ناراض ہیں، کہیں کہ دیکھو دانا حکمراں ایسے ہوتے ہیں۔' فائل فوٹو: روئٹرز

مغلوں کے زمانے میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تصور کیا جاتا تھا۔ ہندوستانی مصنف ششی تھرور نے اپنی کتاب ’این ایرا آف ڈارکنس‘ میں لکھا ہے کہ جب مغلوں کی حکومت زوال پزیر ہوئی اور ملک ایسٹ انڈیا کمپنی کے کنٹرول میں آیا اس وقت دنیا کی معیشت میں ہندوستان کا حصہ تقریباً 23 فیصد تھا (اب امریکہ کا حصہ تقریباً پندرہ فیصد ہے) اور جب برطانوی سامراجی حکومت ختم ہوئی تو یہ گھٹ کر تین فیصد رہ گیا تھا۔
مغل ہندوستان آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ یہیں شادیاں کیں، اور یہیں مرے اور دفن ہوئے۔ لیکن پھر بھی ہندوستانی شہریت کے حقدار نہیں بن پائے۔ معلوم نہیں کہ اس وقت ہندوستان کی شہریت لینے میں کتنے سال لگتے تھے۔ اگر آج کے قوانین اس وقت نافذ ہوتے تو بابر کے علاوہ باقی سب کو آسانی سے شہریت مل گئی ہوتی۔
آج کل مورخ روزانہ اخبارات میں لکھ رہے ہیں کہ تاریخ کو مٹانے یا بدلنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔ لیکن کچھ جرم ہوتے ہیں جن کی سزا ملنی ہی چاہیے۔اور بی جے پی کی حکومتیں کچھ بھی معاف کر سکتی ہیں لیکن غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے والوں کو نہیں بخشتیں۔

شیئر: