Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں آن لائن تعلیم کتنی مشکل؟

وبائی صورتحال میں آن لائن تعلیم کا آپشن اختیار کیا گیا لیکن اس کی افادیت پر متعدد سوالات باقی ہیں (فوٹو: الائٹ پاک)
فیصل خان کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے اور وہ ایک پرائیویٹ فرم میں نوکری کرتے ہیں۔ ان کے تین بچے ہیں جو پرائمری سکول کی مختلف جماعتوں میں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کورونا نے ان کے بچوں کی تعلیم کو شدید متاثر کیا ہے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہر بچے کی سکول فیس بارہ ہزار روپے ہے کیونکہ ان کی تعلیم کے لیے میں نے قدرے بہتر پرائیویٹ سکول کو ترجیح دی تھی۔‘
ان کے مطابق ’کورونا کے باعث جب سکول نے آن لائن کلاسز شروع کیں تو میرے لیے اس صورت حال سے نمٹنا بہت مشکل ہو گیا۔ تینوں بچوں کے لیے الگ الگ سے لیپ ٹاپ لینا اور ان کو الگ الگ کمروں میں رکھنا تاکہ ایک دوسرے کے شور سے متاثر نہ ہوں اور ہر بچے کے ساتھ ایک فرد کا رہنا بالکل ممکن نہیں تھا۔‘ 
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے اس کا ایک حل خود سے ہی نکالا کہ سب سے بڑے بچے کو لیپ ٹاپ لے کر دیا اور اس کی والدہ اس کی کلاسز کے دوران اس کے ساتھ بیٹھتی تھیں۔ جب کہ باقی دو بچوں کے لیے میں نے الگ سے ٹیوٹر رکھا۔ جو روزانہ کی بنیاد پر آ کے بچوں کو اس دن کا سکول کا کام کراتے رہے۔ جبکہ تینوں بچوں کی سکول فیس میں برابر جمع کروا رہا ہوں۔ کیونکہ اگر فیس نہ جمع کروائی تو وہ بچوں کے نام سکول سے خارج کر دیں گے۔ اس لیے ہم نے خاموشی کے ساتھ جو سمجھ آیا اسی طریقے سے نظام چلانے کی کوشش کی۔ دو ماہ سے بچے دوبارہ سکول جا رہے تھے اب پھر چھٹیاں ہو گئی ہیں تو واپس پرانی روٹین پے چلے جائیں گے۔ کیونکہ آن لائن تعلیم کے لوازمات پورے کرنا بہت مشکل ہے جب آپ کے بچے ایک سے زیادہ ہوں۔‘
آن لائن تعلیم کے حوالے سے پاکستان میں پرائمری اینڈ سیکینڈری سکولوں کے بچے اور ان کے والدین کم و بیش ایسے ہی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جبکہ ہائیر سیکینڈری، کالجز اور یونیورسٹی کے طالب علموں کے مسائل کچھ دوسری قسم کے ہیں۔

کالج و یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس بھی آن لائن تعلیم کے دوران تکنیکی وسائل کی قلت کا شکار ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

علینا ذوالفقار یونیورسٹی آف لاہور کی گریجویشن کی طالبہ ہیں اور انگریزی ادب پڑھ رہی ہیں وہ حکومت کی جانب سے دو مہینوں کی چھٹیوں کو ایک زحمت کے طور پر دیکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے پورا ایک سمسٹر آن لائن کلاسز سے پڑا ہے اور میرے لیے یہ ایک تکلیف دہ تجربہ تھا۔ میرا تعلق ایک گاوں سے ہے جہاں انٹرنیٹ کے سگنلز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مجھے روزانہ گاؤں سے ذرا ہٹ کے اپنے ایک دوسرے زیر تعمیر گھر کی چھت پر بیٹھ کے کلاسز لینی پڑیں۔ کمزور انٹرنیٹ اور بجلی کی بندش نے پڑھنے کا سارا مزا خراب رکھا۔ امتحانات دینے کے وقت میں نےچار ایکسٹرا پاور بینک اور دو انٹرنیٹ کنکشنز کا بندوبست کیا۔ اب سردیوں کا موسم شروع ہو رہا ہے اور میں دیکھ رہی ہوں کہ اگلے دو مہینے کتنے تکلیف دہ ہوں گے کیونکہ آج ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ پھر سے ہم آن لائن کلاسز پر شفٹ ہو رہے ہیں۔‘

تعلیمی ادارے کتنے تیار ہیں؟

ایک طرف تو طالب علم اس تعلیمی تعطل سے متاثر ہو رہے تو دوسری طرف تعلیمی ادارے بھی ان حالات میں مشکلات کا شکار ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کی ایک تنظیم سرونگ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے سربراہ رضا الرحمن آن لائن تعلیم کو ایک انتہائی ناقص انتظام قرار دیتے ہیں۔

آن لائن تعلیم نے طلبہ و طالبات کے ساتھ والدین کے لیے بھی خاصی مشکلات پیدا کی ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آن لائن تعلیم کو ہمارے بچے اپنا ہی نہیں سکے۔ جو سکول زیادہ فیس لیتے ہیں یا مہنگے ہیں انہوں نے تو پھر بھی تکنیکی حد تک صورت حال کو سنبھال لیا لیکن جن کی فیس ماہانہ پانچ ہزار سے کم ہے آن لائن تعلیم دینا ان کے بس میں نہیں اور نہ ان والدین کے بس میں ہے جو اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں۔ چونکہ ہماری ایسوسی ایشن پورے پاکستان میں ہے اس لیے میں پورے وثوق سے بتا رہا ہوں کہ ایسے سکول دس سے پندرہ فی صد کے درمیان ہیں جو تکنیکی اعتبار سے آن لائن تعلیم کے معیار پر پورا اترتے ہیں باقی تو صرف وقت گزار رہے ہی۔‘
رضا الرحمن سمجھتے ہیں کہ آن لائن تعلیم سے بچوں کی تعلیم کا شدید حرج ہو رہا ہے۔ ’میرے اپنے بچے کے نمبر انتہائی ناقص ہیں وہ سی گریڈ میں پاس ہوا ۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ پورے سکول کے بچوں کی یہی حالت ہے۔ یعنی اگر آپ آن لائن تعلیم کا بندوبست کر بھی لیں تو وہ روایتی تعلیم کے برابر نہیں ہو سکتی۔ ہم نے حکومت سے التجا کی تھی کہ چھٹیاں نہ کریں آج میں دکھی ہوں۔ ملک بھر میں بچوں کی تعلیم ان چھٹیوں سے مزید متاثر ہو گی اور نجی تعلیمی ادارے مالیاتی بحران کا شکار ہو چکے ہیں وہ مزید اس میں آگے چلے جائیں گے۔ تھوڑی فیسوں والے سکول تو اس دھچکے سے اب نہیں سنبھل سکیں گے۔ لوگ تو اب فیس بھی نہیں دیتے۔آپ سرکاری سکولوں کو دیکھیں تو وہاں تو بالکل حالات اور ہیں اور تیسرا دیہاتوں میں تو آن لائن تعلیم کا ابھی تصور بھی محال ہے۔‘

بہت کم تعلیمی ادارے آن لائن تدریس کا نظام رکھتے ہیں (فوٹو: فیس بک)

انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا بچوں کو کورونا وائرس کے رحم وکرم پر چھوڑا جائے میں کہہ رہا ہوں کہ یہ حل نہیں ہے جیسا کہ حکومت سمجھ رہی ہے۔

آن لائن تعلیم کتنی موثر؟

بچوں کے نفسیاتی علاج کی ماہر ایسوسی ایٹ پروفیسر عاصمہ یوسف کا خیال ہے کہ ’اس بات میں کسی حد تک صداقت یے کہ آن لائن کلاسز سے چھوٹے بچوں کی چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ ’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بچہ حقیقی ماحول میں چیزوں کو زیادہ سیکھتا کے۔ آن لائن کلاس اس کے لئے حقیقی کلاس کے نتائج اس لئے بھی نہیں دے سکتی کہ اس نے کمپیوٹر سکرین کو انٹرٹینمنٹ کے طور پر دیکھا ہے اب اسے اس سے اپنے استاد کو بھی دیکھنا ہے اور کلاس لینی ہے تو یہ سب اس کے لئے غیر متوقع ہے اس لئے اس کے دماغ میں کنفیوژن زیادہ رہتی ہے جس سے سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔‘ 

شیئر: