Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تماشا سرِ رہ گزر ہو رہا ہے

ضمیر جعفری کی دونوں نظمیں بی آر ٹی کی اس تصویر پر صادق آتی ہیں: (فوٹو: اے ایف پی)
کچھ دنوں پہلے پشاور بی آر ٹی کے حوالے سے معروف فکاہیہ شاعر نذیر احمد شیخ کی ایک نظم کالم میں تحریر کی تھی۔ زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے۔ اس نظم کا ایک مصرع پہلے بھی مقبول تھا لیکن بی آر ٹی کے حوالے سے تو لوگوں نے اس کو حکومت کی چھیڑ ہی بنا لیا۔
مصرع کچھ یوں تھا کہ 'نہ بس چل رہا ہے نہ بس چل رہی ہے' اس کالم کی مقبولیت میں میرا کوئی کمال نہیں تھا ساری برکت نذیر احمد شیخ کی لازوال نظم کی تھی۔  
 شاعر کی  پرکھ کا سب سے اہم معیار زمانہ ہے۔ وقت ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ضمیر جعفری اپنی زندگی میں شہنشاہ ظرافت تھے اور آج بھی اس منصب پر فائز ہیں۔ ان کا مصرع اس زمانے میں بھی قہقہوں کا سبب تھا اور آج بھی تبسم خیز ثابت ہوتا ہے۔
ضمیر جعفری بھلے اپنی نیم مدہوش ترنم سے کوئی سنجیدہ غزل مشاعرے میں سنانے کی کوشش کرتے لیکن سامعین ہمیشہ فکاہیہ کلام کے ہی شائق رہتے تھے۔ یہ بھی ہوا کہ استاد نے سنجیدہ شعر سنایا تو لوگ لوٹ پوٹ ہو کر رہ گئے۔ یہ قبولیت کی باتیں ہیں۔
آج بھی کالم میں شہنشاہ ظرافت ضمیر جعفری کی دو نظمیں نقل کر رہا ہوں ۔ حسن اتفاق دیکھیے دونوں ہی  نظمیں بی آر ٹی کی اس تصویر پر صادق آتی ہیں جس میں مسافر بس کو دھکا لگا کر منزل مقصود تک پہنچا رہے ہیں۔  
پہلی نظم 'پرانی موٹر' پر لکھی گئی تھی اور دوسری نظم کا عنوان تھا 'کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے'۔ ان نظموں کو پڑھیے اور کلام  ضیمر سے حظ اٹھایے۔ ان ہر دو نظموں کے مصرعے میں آپ کو جیتی جاگتی، ہانپتی کانپتی بی آر ٹی نظر آئے گی۔  
پرانی موٹر 
عجب اک بار سا مردار پہیوں نے اٹھایا ہے 
اسے انساں کی بد بختی نے جانے کب بنایا ہے 
نہ ماڈل ہے نہ باڈی ہے نہ پایہ ہے نہ سایہ ہے 
پرندہ ہے جسے کوئی شکاری مار لایا ہے 
کوئی شے ہے کہ بیّنِ جسم و جاں معلوم ہوتی ہے 
کسی مرحوم موٹر کا دھواں معلوم ہوتی ہے 
طبعیت مستقل رہتی ہے ناساز و علیل اس کی 
اٹی رہتی ہے نہر اس کی، پھٹی رہتی ہے جھیل اس کی 
توانائی قلیل اس کی تو بینائی بخیل اس کی 
کہ اس کو مدتوں سے کھا چکی عمر طویل اس کی 
گریباں چاک انجن یوں پڑا ہے اپنے چھپر میں 
کہ جیسے کوئی کالا مرغ ہو گھی کے کنستر میں 
ولایت سے کسی سرجارج ایلن بی کے ساتھ آئی 
جوانی لٹ گئی تو سندھ میں یہ خوش صفات آئی 
وہاں جب عین اس کے سر پہ تاریخِ وفات آئی 
نہ جانے کیسے ہاتھ آئی مگر پھر اپنے ہات آئی 
ہمارے ملک میں انگریز کے اقبال کی موٹر 
سن اڑتالیس میں پورے اٹھتر سال کی موٹر 
یہ چلتی ہے تو دوطرفہ ندامت ساتھ چلتی ہے 
بھرے بازار کی پوری ملامت ساتھ چلتی ہے 
بہن کی التجا، ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے 
وفائے دوستاں بہرِ مشقت ساتھ چلتی ہے 
بہت کم اس خرابے کو خراب انجن چلاتا ہے 
عموماً زورِ دستِ دوستاں ہی کام آتا ہے 
کبھی بیلوں کے پیچھے جوت کر چلوائی جاتی ہے 
کبھی خالی خدا کے نام پر کھچوائی جاتی ہے 
پکڑ کر بھیجی جاتی ہے، جکڑ کر لائی جاتی ہے 
وہ کہتے ہیں کہ اس میں پھر بھی موٹر پائی جاتی ہے 
اذیت کو بھی اک نعمت سمجھ کر شادماں ہونا 
تعال ﷲ یوں انساں کا مغلوبِ گماں ہونا 
بہ طرزِ عاشقانہ دوڑ کر، بے ہوش ہو جانا 
بہ رنگِ دلبرانہ جھانک کر، روپوش ہوجانا 
بزرگوں کی طرح کچھ کھانس کر خاموش ہوجانا 
مسلمانوں کی صورت دفعتا پر جوش ہوجانا 
قدم رکھنے سے پہلے لغزشِ مستانہ رکھتی ہے 
کہ ہر فرلانگ پر اپنا مسافر خانہ رکھتی ہے 
دمِ رفتار دنیا کا عجب نقشہ دکھائی دے 
سڑک بیٹھی ہوئی اور آدمی اڑتا دکھائی دے 
نظام زندگی یکسر تہہ و بالا دکھائی دے 
یہ عالم ہو تو اس عالم میں آخر کیا دکھائی دے 
روانی اس کی اک طوفانِ وجد و حال ہے گویا 
کہ جو پرزہ ہے اک بپھرا ہوا قوّال ہے گویا 
شکستہ ساز میں بھی، محشر نغمات رکھتی ہے 
توانائی نہیں رکھتی مگر جذبات رکھتی ہے 
پرانے ماڈلوں میں کوئی اونچی ذات رکھتی ہے 
ابھی پچھلی صدی کے بعض پرزہ جات رکھتی ہے 
غمِ دوراں سے اب تو یہ بھی نوبت آگئی، اکثر 
کسی مرغی سے ٹکرائی تو خود چکرا گئی، اکثر 
ہزاروں حادثے دیکھے، زمانی بھی مکانی بھی 
بہت سے روگ پالے ہیں زراہِ قدر دانی بھی 
خجل اس سخت جانی پر ہے مرگِ ناگہانی بھی 
خداوندا نہ کوئی چیز ہو، اتنی پرانی بھی 
کبھی وقتِ خرام آیا تو ٹائر کا سلام آیا 
تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا 

'جو حال اس زمانے میں کراچی کی بس کا تھا وہی آج بی آر ٹی کا ہے۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

دوسری نظم کا عنوان ہے 'کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے'۔ اس میں تحریف صرف اتنی کی گئی ہے کہ جہاں جہاں کراچی لکھا تھا وہاں اس کو پشاور کر دیا گیا ہے۔ یقین مانیے جو حال اس زمانے میں کراچی کی بس کا تھا وہی آج بی آر ٹی کا ہے۔ 

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے 

پشاور کی بس میں سفر ہو رہا ہے 
نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے 
 
جو دامن تھا، دامن بدر ہو رہا ہے 
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے 
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے 
اِدھر کا مسافر اُدھر ہو رہا ہے 
پشاور کی بس میں سفر ہو رہا ہے 

 

چلی تو مسافر اُچھلنے لگے ہیں 
جو بیٹھے ہوئے تھے وہ چلنےلگے ہیں 
قدم جا کے ٹخنوں سے ٹلنے لگے ہیں 
جو کھایا پیا تھا اُگلنے لگے ہیں 
تماشا سرِ رہ گزر ہو رہا ہے 
پشاور کی بس میں سفر ہو رہا ہے 

مصرع 'نہ بس چل رہا ہے نہ بس چل رہی ہے‘ کو لوگوں نے حکومت کی چھیڑ ہی بنا لیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جو خوش پوش گیسو سنوارے ہوئے تھا 
بہت مال چہرے پہ مارے ہوئے تھا 
بڑا قیمتی سوٹ دھارے ہوئے تھا 
گھڑی بھر میں سب کچھ اتارے ہوئے تھا 
بے چارے کا حلیہ دگر ہو را ہے 
پشاور کی بس میں سفر ہو رہا ہے 
 
جواں کچھ سرِ پائے داں اور بھی ہیں 
معلق بخود رفتگاں اور بھی ہیں 
قطاروں میں بیوی میاں اور بھی ہیں 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں 
ہجوم اور بھی معتبر ہو رہا ہے 
پشاور کی بس میں سفر ہو رہا ہے 
 
مقاماتِ صد اضطراب آ رہے ہیں 
کہ پردہ نشیں بے نقاب آ رہے ہیں 
سڑک پہ سوال و جواب آ رہے ہیں 
بہر گام گر اے مگر ہو رہا 
پشاور کی بس میں سفر ہو رہا ہے 
 
وہ اک پہلواں پیٹھ میں تھم گیا ہے 
بہت بھی گیا تو بہت کم گیا ہے 
کوئی ہاتھ پتلون میں جم گیا ہے 
کوئی ناک دیوار پہ تھم گیا ہے 
کوئی سرو قد مختصر ہو رہا ہے 
پشاور کی بس میں سفر ہو رہا ہے 
 
کوئی نصف بیٹھا ہے، آدھا کھڑا ہے 
جہاں بھی کھڑا ہے وہیں پر گڑا ہے 
کسی کی گھڑی پر کسی کا گھڑا ہے 
کہاں ہاتھ تھا اور کہاں جا پڑا ہے 
جو دیوار تھی اس میں در ہو رہا ہے 
پشاور کی بس میں سفر ہو رہا ہے 
 
جو کالر تھا گردن میں، 'لر' رہ گیا ہے 
ٹماٹر کے تھیلے میں 'ٹر' رہ گیا ہے 
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے 
بغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہے 
کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے 
پشاور کی بس میں سفر ہو رہا ہے 

شیئر:

متعلقہ خبریں