Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تیلنگانہ انتخابات: کیا حیدرآباد کی قسمت بدلے گی یا نام بدلے گا؟

امیت شاہ نے ریلی سے خطاب میں کہا تھا کہ اگر بی جے پی اقتدار میں آئی تو حیدرآباد کا 'نظامی' کلچر بدل دیں گے۔(فوٹو: ٹوئٹر)
اب جبکہ انڈیا کی جنوبی ریاست تیلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد (دکن) کے میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے نتائج آنے لگے ہیں تو لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ کیا حیدرآباد کی قسمت بدلے گی یا نام بدلے گا؟
کسی میونسپل انتخابات میں کوئی بھی مرکزی پارٹی اتنا زور نہیں لگاتی جتنا بی جے پی نے گریٹر حیدرآباد کے میونسل انتخابات میں لگا دیا ہے۔
ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ سے لے کر اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ تک وہاں گئے اور وہاں روہنگیا اور بانی پاکستان محمد علی جناح تک کی بات ہوئی اور شعلہ بیانی اپنے عروج پر نظر آئی۔

 

اگرچہ ان انتخابات میں بی جے پی نے تاریخی طور پر اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن وہ اکثریت سے دور رہ گئی ہے۔ ابتدائی رجحان میں تو وہ 150 میں سے 80 حلقے میں آگے تھی لیکن تا دم تحریر ان کی لیڈ صرف 21 حلقوں میں ہی رہ گئی ہے۔
جب کہ ریاست میں حکمراں جماعت ٹی آر ایس اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحادالمسلمین آگے ہیں۔
اگر امیت شاہ نے بھاگیہ لکشمی مندر سے حیدرآباد کی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ’اگر آلہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کیا جا سکتا ہے تو حیدرآباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر کیوں نہیں کیا جاسکتا۔‘ امیت شاہ نے اپنی ریلی میں کہا تھا کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو وہ حیدرآباد کا 'نظامی' کلچر بدل دیں گے۔
حیدرآباد ایک آزاد ریاست ہوا کرتی تھی جسے تقسیم ہند کے بعد فوج کشی کے ذریعے انڈیا میں ضم کیا گیا تھا۔ حیدرباد کے آخری فرماں روا کے پوتے نجف علی خان نے امیت شاہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی فائدے کے لیے ان کے دادا کے نام کو بدنام کیا جارہا ہے۔ ان کے دادا میر عثمان علی نے انڈیا کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں اور جو عطیات اور امداد دی ہیں ان کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

کسی میونسپل انتخابات میں کوئی بھی مرکزی پارٹی اتنا زور نہیں لگاتی جتنا بی جے پی نے گریٹر حیدرآباد کے میونسل انتخابات میں لگا دیا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

بہر حال جب سے انتخابات ہوئے ہیں حیدرآباد پر بحث و مباحثہ جاری ہے اور آج ٹوئٹر پر ہندی زبان میں ایک ہیش ٹيگ ’بھاگیہ نگر میں بھگواد ہاری‘ ٹرینڈ کر رہا ہے اور لوگ طرح طرح کے میمز شیئر کر رہے ہیں جس میں کوئی اویسی اور یوگی کی تصویر پوسٹ کر رہا تو کوئی اویسی اور امت شاہ کی تصویر جس میں اویسی امیت شاہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔
خیر یہاں بات حیدرآباد کی ہو رہی ہے۔ اس شہر کو بہمنی سلطنت کی تقسیم کے بعد قطب شاہی سلطنت کے فرمانروا اور اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے بسایا تھا۔
اس شہر کی ثقافت ہندو مسلم یکجہتی کی عظیم روایت سمیٹے ہوئے ہے اور اودھ کی طرح یہاں بھی روایتی گنگاجمنی تہذیب نظر آتی ہے۔ لیکن اس کا روپ بہت مختلف ہے اتنا ہی مختلف جتنا شمالی ہند اور جنوبی ہند کا ہے۔
یہ شہر پہاڑی علاقے پر آباد ہے جہاں مصنوعی جھیلیں ہیں جن میں حسین ساگر جھیل بھی شامل ہے اور یہ شہر کے تقریبا قلب میں واقع ہے۔
حیدرآباد کو قلی قطب شاہ نے سنہ 1591 میں آباد کیا لیکن تقریبا ایک سو سال بعد اسے مغلوں نے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا پھر مغل حکومت کے زوال کے وقت یہاں کے گورنر نظام آصف جاہ نے اپنی خودمختاری کا اعلان کرتے ہوئے یہاں آصف جاہی سلطنت قائم کی جو کہ 1769 سے 1948 تک انڈیا میں انضمام تک قائم رہی۔ اور آج یہ انڈیا کا چوتھا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔

ریاست میں حکمراں جماعت ٹی آر ایس اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحادالمسلمین انتخابات میں آگے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اس کے نام کے بارے میں تاریخ میں بہت سی باتیں سامنے آتی ہیں۔ حیدرآباد یعنی حیدر کا شہر یعنی شیر کا شہر۔
اس کا دوسرا نام 'باغ نگر' بتایا جاتا ہے کیونکہ یہاں باغات کثرت سے پائے جاتے تھے اور اس کا ذکر کئی تاریخ دانوں نے کیا ہے کہ 17ویں صدی میں یہ باغ نگر اور حیدرآباد دونوں ناموں سے جانا جاتا تھا۔
ایک مثل یہ بھی مشہور ہے کہ بادشاہ قلی قطب شاہ کا دل بھاگ متی نامی ایک رقاصہ پر آ گیا تھا جسے انھوں نے اپنے نکاح میں لیا اور حیدر محل کا خطاب عطا کیا اور ان کے اعزاز میں شہر کا نام حیدر آباد رکھا۔
لیکن اب اس میں تازہ روایت یہ شامل ہو گئی ہے کہ جہاں چار مینار تعمیر ہے وہاں ایک بھاگ لکشمی نامی ایک دیوی آئی تھی اور اس نے راجہ سے ملنے کی فرمائش کی تو سنتریوں نے اس سے یہ وعدہ لیا کہ ان کے لوٹنے تک وہ وہاں سے نہیں جائے گی اور وہ اس کی اطلاع راجہ کو دینے گئے۔
چونکہ وہ قسمت کی دیوی تھی تو راجہ نے خیال کیا کہ اگر وہ ان سے ملیں گے تو وہ ملاقات کے بعد چلی جائے گی اس لیے وہ نہیں گئے اور وہ دیوی وہیں رہنے لگی۔ لیکن اس کہانی کے شواہد کہیں نہیں ہیں اور یہ حال ہی میں سننے میں آئی اور اس قسم کا کوئی مندر پہلے وجود میں نہیں تھا۔ البتہ وہاں سے دور ایک مندر وجود میں آیا جسے لوگ بھاگیہ لکشمی مندر کہنے لگے۔
اب جبکہ بی جے پی کی جیت کے آثار تقریبا ختم ہوتے جا رہے ہیں تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ حیدرآباد کچھ دنوں تک حیدرآباد رہ سکتا ہے اور ’نظامی کلچر‘ کی بات کریں تو وہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔

شیئر: