Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تارک نماز کافر ہے یا محض فاسق

حق یہی ہے کہ تارکِ نماز کافر ہے اور توبہ نہ کر نے کی شکل میں اسے قتل کیا جائے گا ، وہ کافر اس بنا پر ہے کہ نبی اکرم نے اسے کافر کہا ہے
 
گزشتہ سے پیوستہ
 
محمد منیر قمر۔ الخبر
 
قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ کے علاوہ تارکِ نماز کے کفر کی رائے رکھنے والوں کا استدلال بعض آثارِ صحابہؓ سے بھی ہے جن میں نہ صرف یہ کہ ان صحابہ کرامؓ  کی رائے مذکور ہے بلکہ اس بات پر صحابہؓ کے اجماع واتفاق کاپتہ چلتا ہے ۔ مثلاً سنن ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن شقیق عقیلی ؓبیان فرماتے ہیں : " نبی اکرم کے صحابہ کرامؓ  کسی بھی عمل کے ترک کر نے کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے ترکِ نماز کے ۔
یہ اثر اس بات کاپتہ دیتاہے کہ تارکِ نماز کے کفر پر تمام صحابہ کرام ؓ کی رائے متفق ہو گئی تھی ۔ 
ایسے ہی وہ واقعہ ہے جو کہ حضرت عمر فاروقؓ  کے بارے میں کتبِ حدیث میں وارد ہواہے، چنانچہ مؤطا امام مالک میں صحیح سند کے ساتھ اور انہی امام مالک ؒکے طریق سے سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  بیان کر تے ہیں کہ جب امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ  کو خنجر مارکرز خمی کیا گیا تو کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر میں انہیں مسجد سے اٹھاکران کے گھر لے گیا ۔ حضرت فاروقِ اعظم ؓنے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ  کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑ ھا ئیں ۔ پھر جب ہم حضرت عمر فاروقؓ کے گھر گئے تووہ موت کی غشی میں تھے اور کچھ دیروہ اسی حالت میں رہے اور پھر انہیں کچھ افاقہ ہواتو انہوں نے پو چھا : کیا لوگوں نے نماز پڑ ھی ہے ؟ ۔انہیں کہا گیا کہ ہاںتو انہوں نے فرمایا  : اس کا کوئی اسلام نہیں جو نماز نہیں پڑ ھتا۔
اور دوسرے سیاق میں ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ نے فرمایا : اس کااسلام سے کوئی تعلق نہیں جس نے نماز ترک کردی۔ 
یہ فرمایا اور پھر پانی منگواکر وضو کیا اور نماز ادا فرمائی ۔
 
مجمع الزوائدمیں علامہ ہیثمی نے اس واقعہ کو طبرانی اوسط کی طرف منسوب کیا ہے جس میں حضرت مسوربن مخرمہؓ بیان کر تے ہیں کہ میں حضرت عمرفاروقؓ  کاپتہ لینے ان کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ کپڑ ے میں لپٹے بے سدھ پڑ ے تھے ۔ میں نے حاضر ین سے پوچھاکہ ان کا کیا حال ہے ؟ توانہوں نے کہا : جیسا آپ دیکھ رہے ہیں (یعنی بے ہوش پڑ ے ہیں ) ۔میں نے کہا : انہیں نماز کے حوالے سے ہوش میں لاؤ کیونکہ نماز سے بڑ ھ کر خوفزدہ کر نے والی دوسری کوئی چیز نہیں توپاس بیٹھے لوگوں نے کہا : اے مومنوں کے امیر !نماز کاوقت ہے۔یہ سُنناتھا کہ وہ فوراً پکار اُٹھے : تو چلئے پھر، اور ساتھ ہی فرمایا : اس کااسلام میں کوئی حصہ نہیں جس نے نماز ترک کردی۔ حضرت مسورؓ  فرتے ہیں :پھر انہوں نے نماز ادا کی جبکہ ان کے زخم سے خون جاری تھا۔ 
 
اس واقعہ سے اجماعِ صحابہ ؓ پر یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت فاروق نے یہ کلمات کثیرصحابہؓ  کی موجود گی میں کہے اور ان میں سے کسی نے بھی ان پر نکیر نہیں کی تھی جواِن کلمات پر سب کی رضامندی وموافقت کی دلیل ہے ۔ 
تارکِ نماز کے حکم کاموضوع شروع کر تے وقت آغاز میں ہی ہم ذکر کر چکے ہیں کہ کتنے ہی صحابہ کرامؓ  کا یہی نظر یہ تھا حتیٰ کہ علامہ ابن حزم ؒنے تو بعض صحابہؓ کے اسماء گرامی ذکر کرنے کے بعد لکھا :"اور ہمیں صحابہ کرام ؓ میں سے ان کے مخالف کسی کاعلم نہیں ہوسکا ۔ 
ان کے یہ الفاظ بھی اجماعِ صحابہ ؓ کی طرف ہی اشارہ کرر ہے ہیں اور فقۂ مقارن کی بہترین کتاب المغنی میں امام ابن قدامہؒنے بعض صحابہ کرامؓ کے اقوال بھی نقل کئے ہیں ۔ مثلاً: حضرت عمر فاروقؓ اور عبد اللہ بن شقیقؓ کے اقوال کے علاوہ حضرت علی ؓ  کامقولہ نقل کرتے ہیں جس میں وہ ارشاد فرماتے ہیں : جو نماز نہیں پڑ ھتا وہ کافر ہے۔ 
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ  فرماتے ہیں :جس نے نماز نہ پڑ ھی اس کاکوئی دین نہیں۔ 
 
تارکِ نماز کے کفر پر دلالت کر نے والے بعض آثارِ تابعین وتبع تابعین ؒ  بھی ہیں جنہیں محمد بن نصر مروزیؒ کے حوالہ سے علامہ ابن قیم ؒنے روایت کیا ہے ۔ ایوب سختیانیؒ کاقول ہے  : 
"ترکِ نماز کفر ہے جس میں اختلاف نہیں ہو نا چاہئے۔"  
عبداللہ بن مبارکؒ  فرماتے ہیں : جس نے بلا عذر جان بوجھ کر نماز کو اتنا موخر کر دیا کہ اس کاوقت ہی ختم ہو گیا، اس نے کفر کیا ۔
 
ایک دوسرے قول میں وہ کہتے ہیں :جس نے یہ کہا کہ میں آج کی فرض نماز نہیں پڑ ھوں گاوہ گدھے سے بھی بدترین کافر ہے ۔
 
اسی طرح ابن ابی شیبہ ، صلاقہ بن فضل اور اسحاق ؒ کے اقوال بھی ہیں ۔ان کے علاوہ متعدد ائمہ وفقہاء کے اسمائے گر امی بھی اس موضوع کے آغازمیں ذکر کئے جا چکے ہیں جنہیں اب دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ 
 
تارکِ نماز کے بارے میں دونوں طرح کی آراء کے دلائل تو کافی تفصیل سے آپ کے سامنے آگئے اور اب ہر دوطرح کے دلائل کو سامنے رکھتے ہو ئے کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ان کے مابین محاکمہ وفیصلہ باقی ہے ۔ اس سلسلہ میں ہم بعض محققین ومجتہد ین اور فقہا ء و محدثین کی کتب کی طرف رجوع کر تے ہیں 
 
 سب سے پہلے فقہ حنبلی کے رکن رکین امام ابن قدامہ کی رائے دیکھیں۔ موصوف المغنی میں کئی صفحات پر مشتمل بحث میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی نماز کی فرضیت کاقائل ہو، اس کاانکارنہ کر ے البتہ لا پرواہی وسستی کی وجہ سے نماز نہ پڑ ھے تواسے نماز کی طرف بلایا جائے اور کہا جا ئے کہ تم نے نماز شروع نہ کی توتمہیں قتل کردیا جا ئے گا ۔ اگر وہ پابندہو جائے تو فبہا ورنہ اسے قتل کرنا واجب ہے ۔ اگروہ فرضیت کاہی منکر ہو تووہ کافر و مرتدہے ۔اگر اقرارِ وجوب کے باوجود نماز نہ پڑ ھے تووہ سزائے موت کامستحق ہے لیکن وہ کافر نہیں۔ تارکِ نماز کے کفر پر دلالت کر نے والی جو احادیث ہیں وہ وعید میں شدت پر دلالت کر تی ہیں نہ کہ کفر اصلی وحقیقی پر اور یہی صحیح تربات ہے اور لا پرواہی سے ترکِ نماز کر نے والے کے ساتھ عام کفار کاساسلوک نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ کسی بھی زمانہ میں تارکِ نماز کے مرجانے پر اسے مسلمانوں کے قبر ستان میں دفن نہ کیا گیا ہو ۔ نہ ہی ترکِ نماز کی وجہ سے میاں بیوی میں تفریق کی گئی جبکہ تارکینِ نماز (ہر زمانہ میں )بکثرت رہے ہیں ۔ اگر ایسا تارکِ نماز اپنے حقیقی معنوں میں کافر ہوتا تواس پر یہ تمام احکام ثابت ہو تے۔
 
 مجتہد مطلق امام شوکانیؒ نیل الاوطار میں دونوں طرح کے دلائل کے مابین محاکمہ کر تے ہو ئے لکھتے ہیں : "حق یہی ہے کہ تارکِ نماز کافر ہے (اور توبہ نہ کر نے کی شکل میں ) اسے قتل کیا جائے گا ۔ وہ کافر اس بنا پر ہے کہ نبی اکرم نے اسے کافر کہا ہے اور کسی آدمی اور اس پر اس نام (یعنی کفر)کے اطلاق کے جواز کے مابین حائل صرف نماز کو قرار دیا ہے لہذا ترکِ نماز کاتقاضاہے کہ ایسے آدمی پراس نام (یعنی کفر)کااطلاق جائزہو ۔
 
عدمِ کفر کی رائے رکھنے والوں نے قائلینِ کفر پر جواعتراضات وارد کئے ہیں ہم پر وہ کچھ بھی لازم نہیں کر تے کیو نکہ ہم کہتے ہیں کہ کفر کی بعض انواع واقسام کا بخشش اور حقِ شفاعت میں غیر مانع ہونا ممکن ہے جیسا کہ اہلِ قبلہ مسلمانوں کے بعض گناہ کانام نبی اکرم نے کفر رکھا ہے ۔ جب ایسا ہے توپھر ہمیں ان تاویلات کی ضرورت نہیں جن میں لوگ مبتلاہیں ۔ آگے اسے قتل کئے جانے کے دلائل ذکر کئے ہیں جوکہ ایک الگ موضوع ہے ۔
 
 اسی سلسلہ میں جب ہم علامہ ابن قیمؒکے فیصلہ پر مبنی خیالات کامطالعہ کر تے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ موصوف نے بھی انتہائی وسعتِ نظر ، گہر ی بصیر ت اور محققانہ وغیر جانبدارانہ انداز سے12،13 صفحات صرف فیصلہ پرمبنی فصل کو دئیے ہیں اور دلائلِ جانبین ان کے علاوہ ہیں۔ علامہ موصوف کا کلام اتناجامع ومانع ہے کہ اس میں اختصار بھی کوئی آسان کام نہیں۔ بہر حال کو شش ہے کہ ان کے خیالات کاخلاصہ آپ کے سامنے رکھا جا سکے ۔ موصوف لکھتے ہیں : "تارکِ نماز کے کفر یا عدمِ کفر کے مسئلہ میں حق وصواب معلوم کر نے کے لئے ضروری ہے کہ ایمان اور کفر کی حقیقت معلوم ہو ، تب نفی یا اثبات کا فیصلہ ہوسکتا ہے چنا نچہ کفر اور ایمان باہم مقابل اشیا ہیں اور ایمان ایک ایسی اصل ہے جس کے کئی شعبے ہیں اور ہر شعبے کانام ایمان ہے ۔ اسی طرح نماز بھی جز وِ ایمان ہے ۔ زکوٰۃ ، حج اور روز ہ بھی ، اسی طرح ان ظاہری اعمال کے علاوہ باطنی اعمال مثلاً حیاء ، تو کل علیٰ اللہ ، خشیت وخوفِ الہٰی اور انابت ورجوع الیٰ اللہ بھی ایمان کے اجز اء ہیں حتیٰ کہ ر استے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانابھی ایمان کا ایک شعبہ ہے اور ان شعبوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کے زائل ہو نے سے بھی ایمان زائل نہیں ہو تا جیسے راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے کو ترک کرنا ہے ۔ ایمان کے کچھ شعبے ایسے ہیں جو شہادت سے ملحق اور اس کے قریب ہیں ۔ بعض ایسے ہیں جوراستہ میں پڑی تکلیف دہ چیز ہٹانے سے ملحق اور اسی کے قریب ترہیں ۔
 
ایمان کی اس قسم کی طرح ہی کفر کی اصل اور کئی شعبے ہیں اور جس طرح ایمان کے شعبے ایمان ہیں ،اسی طرح ہی کفر کے شعبے بھی کفر ہیں ۔ حیاء ایمان کا حصہ ہے اور بے حیائی کفر کاایک شعبہ ہے ،صدق وسچائی ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے تو کذب وجھوٹ کفر کا ایک شعبہ ہے ۔ نماز پڑھنا ، زکوٰۃ دینا ،حج کرنا اور روز ے رکھنا ایمان کے شعبے ہیں اور ان کاترک کرنا کفر کے شعبوں میں سے ہے ۔ اللہ کے نازل کردہ آسمانی قانون کے مطابق فیصلہ کر نا ایمان کا شعبہ ہے اور اللہ کے قانون کو چھوڑ کر خود ساختہ قوانین سے فیصلہ کرنا کفر کاشعبہ ہے ۔ غرض تمام گناہ کے کام کفر کے شعبے ہیں اور تمام نیکی کے کام ایمان کے شعبے ہیں اور پھر ایمان کے ان شعبوں یا اجزاء کی بھی2قسمیں ہیں : قولی اجزا ئے ایمان اور فعلی اجزائے ایمان ۔ بعینہٖ کفر کے شعبوں یا اجزاء کی بھی 2قسمیں ہیں : قولی اجزا ئے کفر اور فعلی اجزا ئے کفر ۔
 
قولی اجزائے ایمان میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے جس کے زوال اور خاتمے سے ایمان کاہی خاتمہ ہو جا تا ہے اور فعلی اجزائے ایمان میں سے بھی بعض ایسے ہیں کہ جن کے خاتمے سے ایمان زائل ہو جا تا ہے اور یہی معاملہ کفر کے قولی اور فعلی شعبوں کا بھی ہے ۔ پس جس طرح اپنے اختیار سے کلمۂ کفر کہنا کافرکر دیتا ہے ۔ اسی طرح افعالِ کفر میں سے کسی کا ارتکاب بھی کافر کر دیتا ہے ۔ مثلاً بت کو سجدہ کرنا یا قرآن کی تو ہین کا ارتکاب کرنا ۔یہ ایک اصل ہو ئی جبکہ یہاں ایک اصل اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ایمان کی حقیقت قول اور عمل کے مجموعے کانام ہے ۔ اور قول کی 2قسمیں ہیں : دل کاقول جو کہ اعتقاد یا عقیدہ ہے ۔ زبان کاقول واقرار ، اور وہ ہے : اسلام کا کلمہ کہنا یا پڑ ھنا ۔
ایسے ہی عمل کی بھی 2قسمیں ہیں :دل کاعمل جو کہ نیت واخلاص ہے ۔ا عضائے جسم کاعمل ۔
 
جب یہ چاروںہی زائل ہو گئے تو ایمان ہی نہ رہا ۔ جب تصدیقِ قلب (دل کی تصدیق)زائل ہو گئی تودوسرے اجزائے ایمان بے کار ہو گئے کیو نکہ دل کی تصدیق دیگر امور کے اعتقاد اور ان کے نفع آور ہو نے کے لیٔے شرط ہے ۔جب دل کاعمل اور صدق کااعتقاد زائل ہو جا ئیں تواہلِ سنت کے نزدیک بالاتفاق ایمان زائل ہو گیا کیو نکہ جب دل کا عمل ساتھ نہ ہو تو محض تصدیق فائدہ نہیں دیتی جبکہ دل کاعمل ہی دراصل محبت و اتباع ہے ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے فرعون ، اس کی قوم ، یہود اور مشرکین اپنے نبی کے سچاہونے کی تصدیق کر تے تھے بلکہ پو شیدہ و علانیہ اس کااقراربھی کر تے تھے اور کہتے تھے کہ یہ جھوٹا تو نہیں لیکن ہم نہ اس کی اتباع کریں گے اور نہ ہی اس پر ایمان لائیں گے ۔ انہیں ان کے محض تصدیق و اقرار کر نے سے کو ئی فائدہ نہ پہنچا ۔ جب کسی عمل کے زائل ہو نے سے ایمان زائل ہو جا تا ہے تو پھر یہ کہاں بعید ہے کہ اعمالِ اعضاء میں سے بڑے عمل کے زوال پر ایمان ضائع ہو جائے ۔
یہاں ایک اصل اور بھی ہے اور وہ یہ کہ کفر کی2قسمیں ہیں :عملی کفراورانکاری وعنادی یعنی اعتقادی کفر ۔ 
 
کفرِ اعتقاد تو یہ ہے کہ یہ مانتے ہو ئے کہ رسول جو احکام وافعال اللہ سے لا ئے ہیں اور اللہ کے جو اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ علیا ہیں ، ان سب کا انکار کر ے، ان پر ایمان نہ لا ئے ، یہ کفر ہر اعتبار سے ایمان کی ضد ہے جبکہ کفر کی دوسری قسم یعنی عملی کفر 2طرح کا ہے ۔ اس کے بعض اجزاء تو ایمان کی ضد ہیں جبکہ بعض ایسے نہیں جیسے بت کو سجدہ کرنا ،قرآنِ کریم کی تو ہین کرنا ، نبی کو قتل کرنا اور گالی دینا ،یہ سب عملی کفر ہیں مگرایما ن کی ضد ہیں اور خود ساختہ قانون سے فیصلہ کرنا (قانونِ الہٰی کو چھوڑکر)اور نماز ترک کر نا ، عملی کفر کی اقسام ہیںاور یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایسے شخص سے کفر کی نفی کی جائے جس پر اللہ نے اور اس کے رسول نے کفر کالفظ بو لا ہے ۔ پس خودساختہ قانون سے فیصلہ کر نے والا اور تارکِ نماز نبی اکرم سے ثابت شدہ نصِ صریح کی روسے کافرہے ۔ 
 

شیئر: