Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جامعہ پشاور: ’ملازمین کو صرف بنیادی تنخواہ ملے گی‘

پشاور یونیورسٹی میں 15 ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ ملازمین کی تعداد تقریباً دو ہزار ہے (فوٹو: یو او پی فیس بک)
صوبہ خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی جامعہ، یونیورسٹی آف پشاور کو ایک بار پھر مالی مسائل کا سامنا ہے۔
جامعہ کے پاس فنڈز نہ ہونے کے باعث ملازمین کو جنوری کی تنخواہیں پوری نہیں ملیں گی بلکہ صرف بنیادی تنخواہ دی جائے گی۔
جمعرات کو یونیورسٹی رجسٹرار کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ ’یونیورسٹی کے پاس فنڈز نہیں لہٰذا ملازمین کو رواں ماہ کے الاؤنسز نہیں ملیں گے، صرف بنیادی تنخواہ دی جائے گی۔‘
ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ گذشتہ سال جنوری میں بھی یونیورسٹی نے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے نجی بینکوں سے قرضے لیے تھے۔
یونیورسٹی کے ترجمان محمد نعمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یونیورسٹی گذشتہ دس ماہ سے بند تھی اور طلبہ سے بہت کم ریکوری ہوئی ہے۔ اس لیے تنخواہیں دینے کا مسئلہ پیدا ہوا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ سال جون میں یونیورسٹی کو 25 کروڑ روپے خسارے کا سامنا تھا، تاہم اس سال جون تک خسارہ بڑھ کر ایک ارب روپے تک جانے کا اندیشہ ہے۔‘
یونیورسٹی حکام وفاقی اور صوبائی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی بیل آؤٹ پیکج مل جائے۔ گذشتہ سال یونیورسٹی کو دو ارب روپے کی گرانٹ درکار تھی تاہم صرف 80 کروڑ روپے ملے تھے۔
پشاور یونیورسٹی میں 15 ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں اور یہاں ملازمین کی تعداد تقریبا دو ہزار ہے۔

یونیورسٹی ترجمان کے مطابق یونیورسٹی بند ہونے کی وجہ سے طلبہ سے بہت کم وصولی ہوئی ہے (فوٹو: یو او پی فیس بک)

یونیورسٹی کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے گذشتہ سال پانچ سو کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کر دیا گیا تھا۔
اسی طرح داخلہ فیس، ہاسٹل فیس، ٹیوشن فیس میں اضافہ اور کئی دیگر اقدامات اٹھائے گئے، تاہم اس سے خسارہ کم نہ ہوسکا۔
ترجمان کے مطابق ’یونیورسٹی  کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ پنشنز کی مد میں چلا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک پرانی درس گاہ ہے اور یہاں سے سینکڑوں کی تعداد میں ملازمین ریٹائر ہوئے ہیں۔ سالانہ ایک ارب دس کروڑ روپے پنشن میں چلے جاتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی جامعات میں مالی بحران کو قابو میں لانے کے لیے ہایئر ایجوکیشن، آرکائیو اینڈ لائبریری ڈیپارٹمنٹ نے جامعات میں نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کو پینشن نہ دینے کا اعلامیہ جاری کیا ہے۔
ایک ہفتہ پہلے جاری ہونے والے اس اعلامیے کے مطابق ’صوبے کی تمام جامعات میں نئی بھرتیاں گورنمنٹ پے سکیل کے بجائے اپنے پے سکیل کے مطابق ہوں گی۔‘
’مالی خسارے پر قابو پانے کے لیے جامعات کی زیرنگرانی سکولوں کی فیس بڑھائی جائے جبکہ موجودہ میڈیکل اور ہاؤس الاؤنس کو تبدیل کرکے صوبائی حکومت کی شرح پر لائی جائے۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’ملازمین کے گھروں کی مرمت، سکیورٹی اور دیگر اخراجات کے پیسے کیمپس کے اندر رہائش پذیر ملازمین سے وصول کیے جائیں۔‘
پشاور یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فضل ناصر کہتے ہیں کہ ’تنخواہ سے صرف دس دن پہلے انتظامیہ کو یہ پتا چلنا کہ خزانہ خالی ہے انتہائی افسوس ناک ہے۔‘
ڈاکٹر فضل ناصر کے مطابق ٹریژی ڈیپارٹمنٹ کو پہلے سے پتا ہونا چاہیے تھا کہ ان کے پاس تنخواہوں کے لیے فنڈ موجود نہیں ہیں۔

فضل ناصر کے مطابق کہ یونیورسٹی کو کئی برسوں سے خسارے کا سامنا ہے (فوٹو: یو او پی فیس بک)

جامعہ میں خسارے کی کئی وجوہات ہیں، فضل ناصر کے مطابق ’سب سے بڑی وجہ حکومت کی عدم توجہ ہے، گذشتہ دو ڈھائی سال سے چانسلر جو کہ گورنر شاہ فرمان ہیں ان کے پاس جامعہ پشاور کے لیے وقت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو سال سے یونیورسٹی کا بجٹ بھی پاس نہیں ہوا۔ تنخواہوں اور پنشنز کی رقم بڑھ رہی ہے لیکن وفاق سے پیسے نہیں مل رہے۔ ایک طالب علم پر ایک سمسٹر میں ایک لاکھ پچاس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں اور یونیورسٹی کو فیس کی مد میں صرف پچاس ہزار ملتے ہیں۔ جب بھی وفاق سے جامعہ نے مطالبہ کیا تو ہمیں اس کے صرف پچاس فیصد پیسے ہی ملے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی کو کئی برسوں سے خسارے کا سامنا ہے۔ پہلے صوبے میں چار یونیورسٹیاں تھیں اوراب یہ تعداد بڑھ کر 35 ہوگئی ہے۔ پہلے وفاق سے ملنے والے سو روپے چار پر تقسیم ہوتے تھے اب 35 پر ہو رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنے طور خسارے کو کم کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ ’خسارے کو قابو کرنے کے لیے گذشتہ چھ سال میں یونیورسٹی نے کسی بھی کیٹگری میں کلاس فور ملازم کو بھرتی نہیں کیا بلکہ پانچ سو کو فارغ کیا۔ حالیہ بحران کورونا کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کیونکہ یونیورسٹی بند تھی ہاسٹلز میں بھی طلبہ نہیں تھے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی ہاسٹل میں نہیں تھا تو اس سے فیس کیسے لی جاسکتی ہے؟

فضل ناصر کے مطابق ’مالی بحران کی ایک اور وجہ  یونیورسٹی ایکٹ میں ترامیم  بھی ہیں۔ پہلے صوبہ بھر سے طلبہ کو داخلہ دے سکتے تھے اب صرف پشاور ڈویژن کے طلبہ کو ہی داخلے دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ پہلے ایک لاکھ سے زائد طلبہ پرائیویٹ ایم اے بی کے لیے ایڈمٹ ہوتے تھے اب کم ہوکر پندرہ ہزار رہ گئے ہیں۔ یونیورسٹی کے ساتھ خواتین کے کئی کالجوں کا الحاق تھا اب وہ سب وومن یونیورسٹی کے ساتھ الحاق کرچکے ہیں۔
یونیوسٹی کے مالی بحران اور تنخواہوں کے مسئلے پر اردو نیوز نے مشیر اطلاعات و اعلیٰ تعلیم کامران بنگش سے موقف لینے کی کوشش کی تاہم انہوں نے ٹیلی فون اٹینڈ نہیں کیا۔

شیئر: