Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اختلاف رکھنے والوں کی جاسوسی کے ایرانی نظام ’سوشل انجنیئرنگ‘ کا انکشاف

سائبر سکیورٹی کے ماہر امین صبیتی نے کہا کہ ایران کی سائبر ایجنسیاں ’سوشل انجینیئرنگ‘ یعنی ہیکنگ میں مہارت رکھتی ہیں۔ فوٹو: انسپلیش
ایران کی حکومت اختلاف رائے رکھنے والے اپنے شہریوں کی انٹرنیٹ سمیت مختلف طریقوں سے نگرانی کر رہی ہے۔
عرب نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایک ہزار سے زائد افراد کو ایران، برطانیہ، امریکہ اور دس دیگر ملکوں میں ایرانی ہیکرز نے ہدف بنایا ہے جو حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔
چیک پوائنٹ نامی سائبر سکیورٹی کمپنی کے مطابق دو گروپس ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جن کے ذریعے ناقدین کے کال ڈیٹا اور دیگر سرگرمیوں تک رسائی کے لیے ان کو سپائی ویئر سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔

 

ان میں سے ایک گروپ ڈومیسٹک کِٹن کے نام سے کام کرتا ہے جو ناقدین تک رسائی کے مختلف طریقے استعمال کرتے ہوئے ان مشکوک سافٹ ویئر اپنے فون میں ڈاؤن لوڈ کرنے پر اکساتا ہے۔
چیک پوائنٹ کے مطابق یہ گروپ تہران کے ریستوران کی ایپ کو استعمال کرتا ہے، مقامی خبروں کی ایپ کو بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ موبائل سکیورٹی فراہم کرنے والی جعلی ایپس کے ذریعے بھی ناقدین کے فون تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔
اس گروپ کی جانب سے ایک کیس میں داعش کے حمایتی وال پیپر کو فون ہیکنگ میں استعمال کیا گیا۔
چیک پوائنٹ کی رپورٹ کہتی ہے کہ تہران نے اس طریقے سے 600 کے لگ بھگ کامیاب نگرانی آپریشن کیے۔
معلومات اور ڈیٹا کی ہیکنگ میں ملوث دوسرا گروپ ’انفی‘ ہے جو سنہ 2007 سے ہدف بنائے گئے افراد کو پرکشش مواد ای میل کے ذریعے بھیجتا ہے جس میں سپائی ویئر شامل ہوتا ہے۔
چیک پوائنٹ کے مطابق ایران کا ’انفی‘ پراجیکٹ اب تک سب سے پیچیدہ منصوبہ ہے۔ چیک پوائنٹ کے سائبر ریسرچ کے سربراہ یانیو بلماس کہتے ہیں کہ ’ایران کی حکومت اس طرح کے سائبر آپریشنز میں بہت بڑی رقم لگا رہی ہے۔‘

ڈیجیٹل امپیکٹ لیب کے ڈائریکٹر امین صبیتی کے مطابق ایران کی سائبر ایجنسیاں ’سوشل انجینیئرنگ‘ یعنی ہیکنگ میں مہارت رکھتی ہیں۔ فوٹو: پکسابے

ان کا کہنا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ جاسوسی اور نگرانی کا نظام چلانے والے ایرانی سائبر آپریٹرز کو جوابی کارروائی سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ دونوں گروپ کے سرگرمیاں سامنے آنے کے بعد اور ماضی میں ان کو روکے جانے کے باوجود یہ کام بہت آسانی سے دوبارہ شروع کر دیا گیا۔‘
واشنگٹن میں قائم ڈیجیٹل امپیکٹ لیب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امین صبیتی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ایرانی جاسوسی نظام چلانے والے جب ملک سے باہر موجود حکومتی ناقدین کے ڈیٹا اور فون کالز تک رسائی حاصل کرتے ہیں تو ان کی ترجیح یہ ہوتی ہے ان افراد کو پتہ چلایا جا سکے جو ایران سے ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جاسوسی کرنے والے ملک سے باہر اور ایران کے اندر موجود لوگوں کے نیٹ ورک کا پتہ لگانے کے ساتھ، ان کی گفتگو کے موضوعات تلاش کرتے ہیں اور پھر ایسے افراد کو گرفتار کرتے ہیں۔‘
تاہم امین صبیتی کے مطابق ایران سائبر سکیورٹی کا بڑا خطرہ نہیں۔ ’ایرانی سائبر جاسوسی نظام چین اور روس کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ایران کی سائبر ایجنسیاں ’سوشل انجینیئرنگ‘ یعنی ہیکنگ میں مہارت رکھتی ہیں۔ ’ٹیکنالوجی کے معاملے میں ان کے پاس کچھ زیادہ پیچیدہ یا منفرد نہیں تاہم عمل درآمد میں یہ مہارت رکھتے ہیں۔‘

شیئر: