Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی پی اور ن لیگ کے درمیان برف پگھلنا شروع، لیکن لڑائی کا ذمہ دار کون تھا؟

مولانا فضل الرحمان دونوں جماعتوں کے اختلافات ختم کرنے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے 16 مارچ کے اجلاس کے بعد اتحاد کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات نہ صرف کھل کر سامنے آئے بلکہ دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان لفظی جنگ بھی چھڑ گئی۔
 تاہم اب مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی کی جانب سے ریلی میں شرکت کے اعلان نے دونوں جماعتوں میں ایک بار پھر دوریاں کم کر دی ہیں۔
اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے اختلافات نے نہ صرف پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو ملتوی کروا دیا بلکہ حکومت مخالف تحریک بھی تقریباً دم توڑ گئی۔ تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہوا کہ آخر اس جھگڑے میں پہل کہاں سے ہوئی اور کس جماعت کا قصور زیادہ تھا۔

 

مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ 'پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی جانب سے نواز شریف کی وطن واپسی کے ’نامناسب مطالبے‘ اور دیگر سخت الفاظ نے معاملات بگاڑے۔'
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما کہتے ہیں کہ 'آصف زرداری سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف نے تقریر میں کچھ ایسی باتیں کیں جس کے جواب میں سابق صدر کی جانب سے بھی سخت باتیں کی گئیں۔'
یاد رہے کہ اجلاس میں پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ سے استعفوں کو لانگ مارچ کے ساتھ منسلک کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ مسلم لیگ ن اور اتحاد کی دیگر جماعتوں کا اصرار تھا کہ پی ڈی ایم 26 مارچ کے حکومت مخالف لانگ مارچ کے ساتھ ہی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر حکومت پر دباؤ بڑھائے۔

نواز شریف نے اجلاس میں کیا کہا تھا؟

گو کہ اس فیصلہ کن اجلاس میں آصف زرداری کی تقریر اسی وقت منظر عام پر آ گئی تھی مگر ابھی تک یہ سامنے نہیں آیا کہ اس اجلاس میں نواز شریف نے ایسا کیا کہا تھا کہ جس سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین غصے میں آئے۔

پیپلز پارٹی کے مطابق 'نواز شریف نے تقریر میں کچھ ایسی باتیں کیں جس کے جواب میں آصف زرداری کی جانب سے بھی سخت باتیں کی گئیں' (فوٹو: مسلم لیگ ن میڈیا) 

اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پی ڈی ایم اجلاس میں موجود ایک تیسری جماعت کے رہنما کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ 16 مارچ کے اجلاس میں نواز شریف کی تقریر آصف زرداری سے قبل تھی، تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف نے اپنی تقریر میں زیادہ سخت باتیں نہیں کیں بلکہ انہوں نے اپوزیشن اتحاد کی ترجیحات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا عہدہ کس کو ملے گا۔
'یہ ان کا مقصد نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد اس سے بڑا ہے جو پاکستان کے لیے ہے۔ اتحاد کو ترجیحات واضح کرنی چاہئیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پارلیمان سے استعفوں کی ضرورت پر زور دیا تھا تاکہ اتحاد حکومت پر دباؤ بڑھا سکے۔'

مریم نواز کی تقریر کے بعد آصف زرداری نے ان سے معذرت کی اور دونوں جانب سے معاملہ ختم کر دیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

پی ڈی ایم رہنما کے مطابق 'اس کے بعد آصف زرداری کی تقریر شروع ہوئی، تاہم ان کے الفاظ سے زیادہ اجلاس کے شرکا کو اس بات سے تکلیف پہنچی کہ ابھی انہوں نے چند الفاظ ہی بولے تھے کہ ان کی تقریر میڈیا پر آنا شروع ہو گئی۔'
’یہ سب کے لیے حیرت انگیز تھا کیونکہ عام طور پر اجلاس کے اندر کی گفتگو کو من و عن لیک نہیں کیا جاتا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'آصف زرداری کی جانب سے نواز شریف کی واپسی کے مطالبے کے بعد مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز بھی بولیں تاہم ان کا لہجہ نارمل تھا جس میں انہوں نے شکوہ کیا کہ ان کے والد کی واپسی کا مطالبہ کرنا ان کی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔'
مریم نواز کی تقریر کے بعد سابق صدر آصف زرداری نے ان سے معذرت کی اور دونوں جانب سے معاملہ ختم کر دیا گیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ 'مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کی جانب سے لانگ مارچ کے ساتھ استعفوں کو منسلک کرنے کی دلیل سمجھ نہیں آئی' (فوٹو: اے ایف پی)

اجلاس کے بعد چُبھتے  ٹویٹس اور بیانات

اجلاس کے بعد تلخیاں ختم نہیں ہوئیں اور سب سے پہلے مریم نواز کی جانب سے ایک معنی خیز ٹویٹ کی گئی جس میں نام لیے بغیر بلاول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'اسٹیبلشمنٹ سلیکٹڈ کا متبادل تیار کر رہی ہے۔'
اس ٹویٹ کے جواب میں آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری نے بھی دو ٹویٹس کیں جن میں کسی کا نام لیے بغیر خاصی سخت زبان استعمال کی گئی۔
اس کے علاوہ لاہور میں ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ 'سلیکٹڈ ہونا میرے خون میں نہیں، یہ لاہور کے ایک خاندان کی روایت ہے۔' 

کشیدگی کس نے بڑھائی؟

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی کا کہنا تھا کہ 'دونوں جماعتوں میں حکمت عملی کا فرق بہت گہرا ہے۔'

مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں نام لیے بغیر بلاول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اسٹیبلشمنٹ سلیکٹڈ کا متبادل تیار کر رہی ہے' (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق 'حالیہ کشیدگی زیادہ بڑھانے کا سلسلہ مسلم لیگ ن کی طرف سے شروع ہوا جب مریم نواز نے سلیکٹڈ کا لفظ استعمال کیا، گو کہ اس سے قبل آصف زرداری نے اپنی تقریر میں جو کہا وہ بھی سخت تھا تاہم ایک دوسرے پر الزام تراشی نہیں ہو نا چاہیے تھی۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'دونوں جماعتوں میں بظاہر اب صلح ہو بھی جائے گی مگر اختلافات کا تاثر پھیل چکا ہے۔'
تجزیہ کار اور غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ 'دونوں جماعتوں میں ناپختگی نظر آئی ہے۔ اجلاس کے اندر اختلاف ہونا کوئی بڑی بات نہیں، ایک ہی جماعت کی اپنی اندرونی میٹنگ میں بھی سخت باتیں ہو جاتی ہیں تاہم باہر آ کر اسے سنبھالا جاتا ہے اس کو ہوا نہیں دی جاتی مگر یہاں تو جواب دیا گیا پھر جواب کا جواب دیا گیا جو کہ ناپختگی کا اظہار تھا۔'

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اختلافات کی وجہ سے حکومت مخالف لانگ مارچ ملتوی ہوگیا (فوٹو: اے ایف پی)

 'ایسے ہی موقعوں پر پارٹی قیادت کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ایک بند دروازے کے پیچھے ہونے والے اجلاس کی کارروائی کا اسی وقت میڈیا پر آجانا بھی حیرت انگیز تھا جس سے اتحاد کو نقصان ہو۔'
احمد بلال کے مطابق 'یہ تو نہیں پتا کہ کشیدگی کس نے شروع کی تاہم بعد میں سب نے اس میں حصہ ڈالا۔'
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ 'مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی طرف سے لانگ مارچ کے ساتھ استعفوں کو منسلک کرنے کی دلیل انہیں سمجھ نہیں آئی۔'
 'ان دونوں جماعتوں کی جانب سے پی ڈی ایم اجلاس سے قبل یہ طے کرکے جانا مناسب نہیں تھا جس سے بگاڑ پیدا ہوا۔'
 ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'اگر نواز شریف کی جانب سے کوئی سخت بات کی گئی تھی تو وہ کہیں پر بھی رپورٹ نہیں ہوئی، تاہم پیپلز پارٹی کی جانب سے اہتمام کیا گیا کہ آصف زرداری کی تقریر میڈیا پر رپورٹ ہو۔'

شیئر: