Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میثاق جمہوریت کے 15 سال: کیا اب بھی کسی ایسے معاہدے کی ضرورت ہے؟

میثاق جمہوریت میں پرویز مشرف دور کی ترامیم ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
آج سے ٹھیک 15 سال قبل مئی 2006 میں جب ملک کی سب سے بڑی حریف سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے لندن میں ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے ’میثاق جمہوریت‘ نامی ایک نئے معاہدے پر دستخط کا اعلان کیا تو اس حیرت انگیز پیش رفت نے امید پیدا کر دی کہ ملکی سیاست شائستگی، باہمی برداشت اور جمہوریت کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گی۔
یہ اس لیے بھی اہم تھا کہ اس سے قبل دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے دو ادوار حکومت میں ایک دوسرے کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے اور تلخیوں کی ایک پوری تاریخ کو بھلا کر آگے بڑھنے کا عزم کیا جا رہا تھا۔
سیاسی ماہرین کے مطابق میثاق جمہوریت گو کہ اپنے تمام مقاصد حاصل نہیں کر سکا تاہم اس نے پاکستان کی سیاست پر دورس اثرات مرتب کیے ہیں جن میں اٹھارویں آئینی ترمیم سمیت اہم فیصلے شامل ہیں۔
میثاق جمہوریت میں کیا طے پایا تھا؟
14 مئی 2006 کو نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی جانب سے لندن میں  پیپلزپارٹی کے رہنما رحمان ملک کی رہائش گاہ پر میثاق جمہوریت پر دستخط کیے گئے جس سے قبل دونوں رہنماؤں کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے، جن میں دونوں جماعتوں کے چیدہ چیدہ رہنما بھی شریک ہوئے۔
 چارٹر آف ڈیموکریسی یا میثاق جمہوریت میں اس وقت کی مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترامیم، سیاسی نظام میں فوج کی حیثیت، نیشنل سکیورٹی کونسل، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں دونوں جماعتوں کے اتفاق رائے سے نکات شامل کیے گئے۔
معاہدے میں 1973 کے آئین کو دس اکتوبر 1999 کی شکل میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور پرویز مشرف کی طرف سے کی گئی زیادہ تر ترامیم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

پیپلز پاروٹی جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی پر راضی نہ تھی جبکہ نواز شریف بحالی چاہتے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

اس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک کے دفاعی بجٹ کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
 دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ وہ کسی فوجی حکومت میں نہ تو شامل ہوں گی اور نہ ہی حکومت میں آنے اور منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج کی حمایت طلب کریں گی۔
 تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر عائد کی گئی پابندی کی مخالفت کی گئی اور اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
میثاق جمہوریت میں مزید کہا گیا تھا کہ ’اعلیٰ عد لیہ کے جج صاحبان کی تقرری کے لیے ایک کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ فاٹا کے قبائلی علاقوں کو وہاں کے عوام کے صلاح مشورے سے صوبہ سرحد میں شامل کیا جائے گا۔‘

میثاق جمہوریت میں کہا گیا تھا کہ لوکل کونسلوں کے انتخابات سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر کرائے جائیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے مطابق ’شمالی علاقہ جات کی ترقی کے لیے ان کو ایک خاص حیثیت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات میں قائم ’قانون ساز کونسل‘ کو زیادہ با اختیار بنایا جائے گا تاکہ وہاں کے عوام کو انصاف تک رسائی اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول میں آسانی ہو۔‘
اسی طرح ’لوکل کونسلوں کے انتخابات سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر کرائے جائیں گے۔
 ’یہ انتخابات ہر صوبے میں صوبائی الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی ہوں گے، ان بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دیا جائے گا اور ان کو خود مختار بنایا جائے گا، یہ ادارے اپنی صوبائی اسمبلیوں کو جواب دہ ہوں گے، عوام بھی عام عدالتوں کے ذریعے ان کا احتساب کر سکیں گے۔‘
اس کے علاوہ نیشنل سیکورٹی کونسل ختم کرکے کابینہ کی دفاعی کمیٹی بنانے، ’ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن‘ بنانے کارگل جیسے واقعات کی تحقیقات، نیب کے اپنے احتساب جیسے فیصلے بھی کیے گئے جن پر اب تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
انڈیا اور افغانستان سے دوستانہ تعلقات کا بھی فیصلہ کیا گیا اور کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق حل کرنے کی کوشش کا عندیہ دیا گیا۔

پنجاب میں گورنر راج نافذ ہونے کے بعد پی پی اور مسلم لیگ ن میں مخالفت مزید بڑھی (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح آزادانہ انتخابات کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے مشورے سے الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا بھی فیصلہ کیا گیا۔انٹیلی جینس ایجنسیوں کو حکومتی احتساب ہو سکے گا اور ان کے سیاسی سیل ختم کر دیے جائیں گے۔
میثاق جمہوریت پر دونوں جماعتیں ٹھہر نہ سکیں‘
انگریزی اخبار ڈان کے اس وقت کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اور سینئر صحافی ضیا الدین کے مطابق میثاق جمہوریت پر دستخط کے وقت اصل بات یہ تھی کہ دونوں بڑی جماعتوں نے محسوس کیا تھا کہ ان کے درمیان جو لڑائی طویل عرصے سے چلتی جا رہی تھی اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ ہے ۔ لہٰذا اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اب دونوں جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ایک دوسرے کے خلاف نہیں جائیں گی، مگر یہ بات نہ قائم رہی اور واپسی پر دونوں جماعتوں نے پھر وہی روش اختیار کر لی۔
 نواز شریف ہر صورت جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی راضی نہ تھی۔ پھر یہ بھی وقت آیا کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں گورنر راج لگا کر مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کر دی۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن نے بھی حکومت کے خلاف میمو گیٹ کا معاملہ اٹھایا، گویا دونوں جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ایک بار پھر کھیلیں۔

میثاق جمہوریت میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک کے دفاعی بجٹ کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم کچھ حصوں پر عمل ہوا جیسا کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خودمختاری اور الیکشن کمیشن اور ججوں کی تعیناتی کا طریق کار طے کیا گیا تاہم اصل معاملہ وہیں رہا۔
ضیا الدین کے مطابق ’دونوں جماعتوں کو پھر سے بات کرنا پڑے گی، ایک نیا عمرانی معاہدہ کرنا ہو گا۔‘
سیاسی تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کا بھی خیال ہے کہ دونوں جماعتیں میثاق جمہوریت پر عمل درآمد میں ناکام رہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف بے نظیر بھٹو میثاق جمہوریت پر دستخط کر رہی تھیں اور دوسری طرف وہ جنرل مشرف سے وطن واپسی کے لیے خفیہ مذاکرات بھی کر رہی تھیں۔ پھر اسی معاہدے کے تحت وہ واپس آئیں  جس کے بعد مشرف پر دباؤ بڑھا تو نواز شریف بھی واپس آ گئے۔
گو کچھ عرصہ دونوں جماعتیں مشرف کے خلاف متحد ہو کر چلیں تاہم ایک سال کے اندر ہی دوبارہ گھتم گھتا ہو گئیں اور پنجاب میں گورنر راج کے بعد لڑائی بڑھ گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میثاق جمہوریت کے کچھ خدوخال تو ملک میں جمہوریت کے لیے بہتر رہے جن میں آئینی عہدوں پر حکومت اور اپوزیشن کی مل کر تقرریاں وغیرہ مگر مکمل فائدہ نہیں ہوا۔‘

میثاق جمہوریت میں کہا گیا تھا کہ ’اعلیٰ عد لیہ کے جج صاحبان کی تقرری کے لیے ایک کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)

تمام سیاسی جماعتوں کے نئے میثاق کی ضرورت
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ملک کو ایک ایسے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے جو پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں کے درمیان ہو تاکہ ملکی سیاست کی مشترکہ سمت متعین کی جا سکے۔
رسول بخش رئیس کے مطابق اگر میثاق جمہوریت کو دو جماعتوں سے وسیع کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق ’اب بھی اگر چارٹر آف ڈیموکریسی میں دیگر جماعتوں کو شامل کیا جائے اور اس کے مسودے میں کچھ مزید بہتری کی جائے تو یہ اب بھی ایک موثر دستاویز ہے اور یہ درست نہیں کہ اسے دو جماعتوں کا مک مکا قرار دیا جائے کیونکہ مک مکا میں غلطیوں کا اعتراف نہیں ہوتا جبکہ میثاق جمہوریت میں دونوں جماعتوں نے ماضی کی غلطیوں کو مانا تھا۔‘
مظہر عباس کے مطابق ’اگر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اس پر مکمل عمل کرتے تو جو سوالات آج پیدا ہو رہے ہیں ان کے جوابات مل جاتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب بھی سیاسی اتفاق رائے، آزادانہ  اور مداخلت سے پاک انتخابات پر سب جماعتیں متفق ہوں تو یہ ملک کے لیے اچھا ہو گا۔‘

شیئر: