Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان فوجیوں کو طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ترغیب پر قبائلی عمائدین گرفتار

طالبان مخالف ملیشیا کے ارکان صوبہ ہلمند میں لڑائی کے دوران فائرنگ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
کابل میں افغان فوجیوں کو طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ترغیب دینے کے الزام میں درجنوں قبائلی عمائدین کو گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ بات جمعے کو افغانستان کے حکومتی حکام کی جانب سے بتائی گئی ہے جبکہ عسکریت پسندوں کی جانب سے ان دنوں افغان فورسز کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق افغانستان میں پچھلے ہفتے کے دوران لڑائی میں کافی تیزی آئی جبکہ امریکہ اپنا ملٹری آپریشن ختم کرتے ہوئے 11 ستمبر تک وہاں سے نکلنے کی تیاری کر رہا ہے۔
طالبان نے اپنے حملے بڑھا دیے ہیں جس سے کابل کے ان خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ طاقت کے بل پر یا حکومتی فوجیوں کو ساتھ ملا کر پھر سے طاقت میں آ سکتے ہیں۔
رواں ہفتے کے آغاز میں وزارت داخلہ نے اعلان کیا تھا کہ قبائلی عمائدین کی جانب سے فوجیوں کو اپنے تحفظ کے لیے اپنا کام چھوڑنے کی ترغیب دراصل ’دشمن کی براہ راست مدد ہے۔‘
وزرات داخلہ کے ترجمان طارق اریان نے عرب نیو کو بتایا کہ ’ان مشران میں سے درجنوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے کیس عدالت کو بھیجے جائیں گے۔‘ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ پچھلے دو ہفتے سے جاری ہے۔ مشرقی صوبے نورستان میں 19 مشران کو طالبان کی جانب سے دو اضلاع پر قبضہ کرنے کے بعد حراست میں لیا گیا۔
نورستان کے پولیس چیف عاقل شاہ خیلوتی نے بتایا ’ان گرفتاریوں کا اچھا اثر ہوا ہے اور اسی وجہ سے حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں طالبان نے فوجیوں کے ساتھ ثالثی کے لیے مجبور کیا تھا۔
طالبان نے تصدیق کی ہے کہ ان کی جانب سے وفود کو قبائلی مشران کے پاس بھیجا گیا تھا تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انہیں مجبور کیے جانے کی تردید کی ہے۔

افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے بعد طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے (فوٹو: روئٹرز)

کچھ افغان قانون سازوں نے ان گرفتاریوں کی منظوری دی تھی جن میں فوزیہ راؤفی بھی شامل ہیں جو شمالی فریاب صوبے سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔
جمعرات کو شیرین تاگب میں تین سو فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد فوزیہ راؤفی کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے میں رکاوٹ ڈالنی چاہیے۔
 تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کچھ روز تک فوجیوں کی کوئی مدد نہیں کی گئی تھی۔
بقول ان کے ’فوجیوں نے ہوائی مدد کے لیے کئی روز تک مطالبہ کیا، مگر کچھ نہیں ہوا، سو وہ طالبان کی زد میں آ گئے۔
راؤفی کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک المیہ اور طالبان کی تقویت کا باعث بنا کہ 84 گاڑیاں، گولہ بارود اور دیگر ہتھیار طالبان کے قبضے میں چلے گئے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مئی کے آغاز کے آغاز سے اب تک 20 اضلاع پر قبضہ کیا ہے۔
حکومت نے کچھ علاقوں میں نقصانات کو تسلیم کیا ہے تاہم تفصیلات نہیں بتائیں۔

شیئر: