Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دہلی: جاسوسی یا آکسیجن؟

بہار کے وزیر اعلیٰ نے جاسوسی کے مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث اور انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا میں پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہے اور کانگریس کے رہنما راہل گاندھی اور حزب اختلاف کے دوسرے سرکردہ لیڈر حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیلی سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے جاسوسی کے الزامات پر پارلیمنٹ میں بحث کرائے ورنہ وہ دونوں ایوانوں کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔
اب اگر حکومت خفیہ اور غیرقانونی طور پر کچھ لوگوں کی باتیں سن رہی تھی تو پارلیمنٹ میں بحث تو بنتی ہے۔ جوابدہی بھی بنتی ہے۔ سوال تو ضرور پوچھے جانے چاہییں کہ اپنے ہی لوگوں کی جاسوسی کیوں ہو رہی تھی، کون کر رہا تھا اور اس کی اجازت کس نے دی تھی۔
یہ سافٹ ویئر لاکھوں ڈالر میں آتا ہے تو وہ کون سا محکمہ یا ایجنسی تھی جس کے پاس اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کی اجازت ہو اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو؟ اگر یہ واقعی کوئی سرکاری ایجنسی تھی تو حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، ان کے پاس بڑے بجٹ ہوتے ہیں یہ سب جانتے ہیں اور وہ اس بجٹ کا کیا کرتی ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔
کوئی نہیں سے مراد یہ ہے کہ خرچ کرنے والوں کے علاوہ کوئی ان کے بھی کھاتے چیک نہیں کرتا کیونکہ بظاہر ایسا کرنے سے قومی سلامتی کے ایشوز پیدا ہو سکتے ہیں۔
لیکن دو تین سوال ہیں جن کا جواب آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔ جس نے یہ سافٹ ویئر خریدا، ظاہر ہے کہ اسی نے ان لوگوں کی فہرست بھی تیار کی ہوگی جن کی ممکنہ طور پر جاسوسی کی جانی تھی۔
یہ فہرست لمبی تھی اور اس میں کچھ نام ایسے ہیں جن کی شمولیت سمجھ میں آتی ہے۔ اگر انڈیا کی سیاست میں آپ کی دلچسپی ہے تو ظاہر ہے کہ آپ معلوم کرنا چاہیں گے کہ راہل گاندھی کیا سوچ رہے ہیں، مستقبل کے لیے ان کی حکمت عملی کیا ہے، کس سے رابطے میں ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں اگر آپ کی دلچسپی ہو تو ظاہر ہے کہ آپ جاننا چاہیں گے کہ پرشانت کشور، جو انتخابات میں وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کی مدد کر رہے تھے، ان کی انتخابی مہم کے لیے کیا حکمت عملی تیار کر رہے ہیں، وہ کن ایشوز کو ہائی لائٹ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے خیال میں ممتا بنرجی کی کمزوریاں کیا ہیں۔۔۔ یہ سب معلوم ہو جائے تو الیکشن جیتنے کا کام آسان ہو جاتا ہے، یہ ایک طرح سے ایسے ہے کہ حساب کے مشکل امتحان سے پہلے پیپر آؤٹ ہو جائے۔

راہل گاندھی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جاسوسی کے الزامات پر پارلیمنٹ میں بحث کرے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن اس عورت اور اس کے رشتے داروں کی جاسوسی میں کس کی دلچسپی ہو سکتی ہے جس نے تقریباً دو سال قبل انڈیا کے اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔ کون اس خاتون اور اس کے رشتے داروں کی بات چیت سننا چاہتا تھا اور کیوں؟ سپریم کورٹ کی ایک کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ چیف جسٹس بے قصور تھے اور بعد میں عدالت کی ایک بنچ نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ انہیں ایک سازش کے تحت نشانہ بنایا گیا ہو۔
الزامات سامنے آنے کے بعد اس عورت کو برخاست کر دیا گیا تھا لیکن بعد میں بحال کر دیا گیا۔ آخر کیوں؟
تو آپ کو آئیڈیا ہو ہی گیا ہوگا کہ انڈیا جیسے جمہوری نظام حکومت میں یہ بہت بڑا ایشو ہے۔ حکومت کے پاس چھپانے کے لیے اگر کچھ نہیں ہے تو وہ بحث سے کیوں بچ رہی ہے؟ وہ لفظوں کی باریکیوں کے پیچھے کیوں چھپ رہی ہے، صاف طور پر یہ کیوں نہیں کہتی کہ ہم نے یہ سافٹ ویئر خریدا ہی نہیں تھا؟
اب پہلی مرتبہ حکمراں بی جے پی کے اتحادی اور بہار کے وزیر اعلیٰ نے جاسوسی کے مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث اور انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت نے حزب اختلاف کی بات تو سنی نہیں ہو سکتا ہے کہ نتیش کمار کی بات کا ہی کچھ اثر ہو جائے۔

انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت جاسوسی کے انکشافات کے بعد وزیراعظم نریندر مودی پر غداری کا الزام لگایا۔ (فوٹو: روئٹرز)

لیکن نوبت یہاں تک آنی نہیں چاہیے تھی۔ آئی اس لیے کہ اپوزیشن کی پارٹیوں میں اتحاد نہیں ہے۔ ان کے پاس نریندر مودی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اور بری خبر یہ ہے کہ شاید ہو بھی نا کیونکہ انڈیا میں جتنی سیاسی پارٹیاں ہیں اتنے ہی وزیراعظم کے عہدے کے دعویدار۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر پانچ سات سیٹوں سے زیادہ نہیں جیت پاتے۔
ایسا نہیں ہے کہ کم سیٹ جیتنے والے وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ نوے کےعشرے میں ایسے کئی رہنما وزیراعظم بنے جو عام حالات میں شاید اس عہدے کے آس پاس بھی نہیں پہنچتے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا میں بہت سے رہنما الیکشن جیتنے سے پہلے ہی وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ ایک متحدہ محاذ بنانے کے لیے ان کی کوششیں بعد میں شروع ہوتی ہیں، وزیراعظم کون بنے گا اس بات پر تنازع پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ ان کے سیاسی نظریات بھی الگ ہیں اور نریندر مودی یا بی جے پی سے محبت یا دشمنی کی ڈگری بھی، اس لیے ان کا ایک پلیٹ فارم پر آ پانا ٹیڑھی کھیر ہے۔
اگر ملک میں ایک متحد اور مضبوط اپوزیشن ہوتی، اس کا ایک قد آور رہنما ہوتا، اس رہنما کا دامن بے داغ ہوتا تو اس کی بات میں اتنا وزن ضرور ہوتا کہ حکومت اور کچھ کرتی یا نہ کرتی، بحث سے انکار نہ کرپاتی۔

کورونا وائرس کی وجہ سے انڈیا میں امریکہ اور برازیل کے بعد ریکارڈ کیسز سامنے آئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایسے ایشوز کی کمی نہیں ہے جن پر نریندر مودی کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جا سکے۔ ان میں سب سے بڑا ایشو ہونا چاہیے تھا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران حکومت کی نااہلی اور کوتاہیاں۔
لیکن انڈیا میں اب کوروناوائرس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے، کوئی یاد نہیں کر رہا کہ گنگا میں تیرنے والی لاشیں کس کی تھیں، آکسیجن کی کمی کے لیے کون ذمہ دار تھا؟
لیکن ان ایشوز کو اٹھائے کون؟ بحث آکسیجن اور جاسوسی کے درمیان نہیں ہے۔ دراصل بحث ہی نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو اور کچھ پتا چلتا یا نہ چلتا یہ ضرور معلوم ہوجاتا کہ ایک چیف جسٹس پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی عورت کی بات چیت سننے میں کس کی دلچسپی تھی؟
بس اس ایک جواب سے تمام سوالات کے جواب مل جاتے۔

شیئر: