Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد اب کیا ہوگا؟

افغانستان سے امریکہ کے انخلا نے صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے لیے نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ نے 55 سو کے قریب امریکی شہریوں کو افغانستان سے نکالا ہے۔ امریکیوں کی ایک چھوٹی سی تعداد نے افغانستان میں رہنے کو ترجیح دی ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہ سکیں۔
 جو بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسے توقع ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان باقی رہ جانے والے امریکی شہریوں اور دیگر افراد کو ملک چھوڑنے دیں گے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ ایک فعال ایئرپورٹ نہ ہونے پر وہ ملک کیسے چھوڑ سکیں گے۔
امریکی فوج کے ساتھ مترجموں، صحافیوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ہزاروں افغان پیچھے رہ گئے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا، لیکن حکام کو خدشہ ہے کہ طالبان ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔
اتوار کو امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں طالبان سے اپیل کی گئی کہ جن غیرملکیوں اور افغان شہریوں کے پاس سفر کی دستاویزات ہیں انہیں کسی دوسرے ملک سے سفر کی اجازت دیں۔

امریکیوں کے انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ کا کیا ہوگا؟

گذشتہ دو ہفتوں سے کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی اور آپریشنز کا انتظام چھ ہزار امریکی فوجیوں کے ہاتھ میں تھا۔
طالبان کابل ایئرپورٹ سے سویلین فلائٹس کو جاری رکھنے کے لیے قطر اور ترکی کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔
ترکی کے وزیر خارجہ نے اتوار کو کہا کہ عام شہریوں کے لیے پروازیں چلانے سے پہلے کابل ایئرپورٹ کی مرمت کی ضرورت ہے۔

برطانیہ اور کچھ  دیگر ممالک نے کہا ہے کہ کسی کو بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ترکی گذشتہ چھ برس سے کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی سنبھال رہا ہے۔ ایئرپورٹ کو کھلا رکھنا نہ صرف افغانستان کے لیے اہم ہے بلکہ امدادی سامان اور دیگر آپریشنز کے لیے ضروری ہے۔

 مستقبل میں امریکہ اور طالبان کے تعلقات کیسے ہوں گے؟

امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے سفارتکاروں کو افغانستان میں نہیں چھوڑے گا اور مستقبل میں کیا حکمت عملی ہوگی یہ طالبان کے طرز عمل پر منحصر ہوگا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک کروڑ 80 لاکھ افغان شہریوں کو امداد کی ضرورت ہے اور افغانستان کے آدھے بچوں کو غذا کی کمی کا سامنا ہے۔
برطانیہ اور کچھ دیگر ممالک نے کہا ہے کہ کسی کو بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔

دولت اسلامیہ خراسان 2014 میں مشرقی افغانستان میں سامنے آئی۔ (فوٹو: وال سٹریٹ جرنل)

داعش کی طرف سے کس قسم کا خطرہ ہے؟

امریکہ اور طالبان کے درمیان تعاون کا ایک نقطہ داعش ہو سکتی ہے۔ اب یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ امریکہ اور طالبان داعش سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کیسے تعاون کر سکتے ہیں اور معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔
دولت اسلامیہ خراسان سنہ 2014 میں مشرقی افغانستان میں سامنے آئی۔ اس گروہ نے کابل ایئرپورٹ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ اس کے بعد امریکہ نے اس گروہ پر کم از کم دو ڈرون حملے کیے ہیں اور امریکی صدر نے کہا ہے کہ وہ یہ حملے جاری رکھیں گے۔

شیئر: