Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پردیس کے احساسات امی کے قریب رہ کر پہچانے،قندیل

 
بعض اوقات یہ قربت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اسے چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا، اسکے برعکس کبھی کچھ فیصلے اپنے بس میں نہیں ہوتے، نہ چاہتے ہوئے بھی واپسی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے
 
تسنیم امجد ۔۔ ریاض
وقت کیا ہے، حس ہے ،احساس ہے، کیف ہے ،کیفیت ہے ، تصور ہے ، تصویر ہے ،عذر ہے ، تعزیر ہے، لفظ ہے ، تحریر ہے، حلقہ ہے ، زنجیر ہے ، جو بھی ہے عجیب ہے ،ہمیشہ سے اپنی ضد پر قائم ہے، کسی کی ایک نہیں سنتا، ہزار منت سماجت کریں، ایک ساعت کے ہزارویں حصے کے لئے بھی توقف نہیں کرتا، ہردم رواں رہتا ہے۔ گزرتا جاتا ہے،کہیں اپنوں کو پرایاکر دیتا ہے اور کہیں پرایوں کو عزیز تر از جاں بنا دیتا ہے ۔ کوئی صنف نازک جب کسی غیر سے بیاہ دی جاتی ہے تو وہ اپنے میکے کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ کر اسی ”پرائے“ کے ہم قدم ہولیتی ہے پھر صبحیں شاموں میں بدلتی ہیں، دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں ڈھلتے ہیں ، دو انجان ہمقدم کبھی لڑکھڑاتے ہیں، کبھی سنبھلتے ہیں،وقت رواں دواں رہتا ہے پھر نجانے کیوں وہ غیر پہلے اپنوں جیسا ہوتا ہے ، پھراپنا ہوتا ہے اور پھر اپنوں سے بھی پیارا ہو جاتا ہے ۔
یہی حال پردیس کا بھی ہے ، پہلے پہل تو غیر لگتا ہے، پھر اپنوں جیسا اور پھر اپنوں کی طرح پیارا ہو جاتا ہے ۔پردیس میں جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، پرایا پن کافور ہوتا جاتا ہے ۔ ویسے بھی انسان کی فطرت یہی ہے کہ وہ جلد ہی ماحول سے مانوس ہوجاتا ہے اور منفی پہلوﺅں کو بھی مثبت زاویے سے دیکھنے و پرکھنے لگتا ہے ۔ پردیس میں شفقت و محبت، مسرت و مروت اور آسودگی کی چھاﺅں جب میسر آجائے تو اسے دیار غیر کہتے ہوئے بے وفائی شمار ہوتی ہے ۔ بعض اوقات یہ قربت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اسے چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔ اس کے برعکس کبھی کبھی کچھ فیصلے اپنے بس میں نہیں ہوتے، نہ چاہتے ہوئے بھی واپسی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
”ہوا کے دوش“ پر ہماری مہمان قندیل ایمن نے اردو نیوز سے اپنی گفتگو کا آغاز اپنی امی کے لئے ایک نظم پیش کرتے ہوئے کیا:
میری زندگی ، میری خوشی میری چاہت ہے میری ماں
میری محبت، میرا عشق میری ،دیوانگی ہے میری ماں
میرا تعلق لاہور سے ہے۔ میرے والد محمد سعید بھٹہ کویت میں ہیں جبکہ والدہ زاہدہ سعید بچوں کی تعلیمی ضروریات کے تحت وطن میں ہی رہیں۔ میں اپنے امی ابو کی پہلی اولاد ہوں۔ ان کی زیادہ تر توجہ مجھ پرہی تھی شاید اس لئے کہ بڑے بچے کی تربیت اچھی ہوجائے تو باقی اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں اورماں کی ذمہ داری تقسیم ہوجاتی ہے۔ ابو کے بیرون ِ ملک ہونے سے امی کو گھر سے باہر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالنی پڑیں جس میں سب سے اہم مجھے کالج سے ، یونیورسٹی چھوڑنا اور پھر میرے آنے کا انتظار کرنا تھا۔ ان کا دیا ہوا اعتماد آج بھی میرے کام آتا ہے ۔میں بچپن میں ہی اپنی دونوں بہنوں اقراءاور مزمل کی تربیت میں امی کی معاونت کرنے لگی تھی۔ میں نے  دیس، پردیس کے احساسات کو اپنی امی کے قریب رہ کر خوب جانا اور پہچانا۔ ابو کا پردیس آنا اورجانا ، امی کا انتظار، یہ احساسات میں بخوبی جانتی تھی۔ اب جبکہ میں خود وطن سے دور ہوں تو اسی احساس سے گزرتی ہوں۔ میں نے امی سے صبر و قناعت کا درس لیا جو مجھے آئندہ زندگی میں قدم قدم پر کام آیا۔وہ ہمیں جھوٹ نہ بولنے کی تلقین کرتی تھیں۔ اس سے متعلق قصے کہانیاں بھی سناتی تھیں۔ اس طرح ہم سب بہن بھائیوں میں امی جان کی وہی تلقین سرایت کرتی چلی گئی۔
قندیل کے شوہر ایمن ظہیر نے کہاکہ بیگم کے احساسات کو میں سمجھتا ہوں۔ دراصل یہ والدین کی شادی کے 17 سال بعد پیدا ہوئیں۔اس دوران سعید بھٹہ کی دوسری شادی کردی گئی اور وہ کویت میں نئی دلہن کی رفاقت میں رہنے لگے جبکہ سوکن اور تنہائی کا روگ ان کی امی نے سہا۔ قندیل کہنے لگیں کہ ہماری دوسری امی سے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جس شے کی زندگی میں کمی ہوتی ہے اس کی چاہت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ مجھے بھائی کی کمی شدت سے محسوس ہوتی رہی۔ دوسری امی کے بیٹے تو صرف چھٹی پر ہی آتے تھے۔بہر حال میں بہت خوش نصیب ہوںکیونکہ مجھے نہایت محبت کرنے والا سسرال ملا۔
2013 ءمیرے لئے نہایت اہم رہا، مجھے بے حدخوشیاں ملیں۔ پہلے میرے ماسٹرز کا نتیجہ آیا جس میں مَیں نے انگلش لٹریچر ڈپارٹمنٹ میں ٹاپ کیا ۔ دوسری بڑی خوشی میری شادی تھی یعنی ایمن ظہیر نے میری زندگی میں قدم رکھا جو بے حد مبارک ثابت ہوا۔ سسرال میں سسر ، میاں ظہیر احمد ، ساس امی روبینہ ظہیر، نند ایمان ارسلان اور دونوں بھائی علی ارسلان و ابتسام ظہیر نے مجھے عزت و توقیر سے نوازا۔ شادی بھی ا چانک ہوئی۔ فائنل ایئر میں امتحانات کی تیاری اورپھر اچانک نکاح۔ خیر امتحان دیا او رپھر مملکت آنے کی تیاری شروع ہوگئی۔ انہی دنوں مجھے یونیورسٹی سے فون آیا کہ آپ کا لیکچرر شپ کیلئے تقرر ہوگیا ہے۔ میں نے معذرت کرلی۔ وہ لمحے ایسے تھے کہ مجھے مملکت آنے کا بھی اشتیاق تھا اور اپنے اساتذہ کے ساتھ کام کرنے کا شوق بھی تھا ۔
سسرال میں سبھی کو میرے زرلٹ کا انتظار تھا پھر زرلٹ کے بعد جب ماما یعنی میری ساس او ربابا جانی یعنی سسر نے مٹھائی بانٹی تووہ مجھے اپنے والدین سے کسی طور کم نہ لگے۔وہ بھی میرے امی ابو کی طرح میری کامیابی چاہتے ہیں ۔ مجھے لکھنے کاشوق ہے، شاعری بھی کرتی ہوں۔ سبھی میری تحریروں کو سراہتے ہیں ۔ انگریزی ادب سے شغف کے باعث میں مختلف انگریزی اخبارات و رسائل میں لکھتی ہوں۔ میراایک شعر ملاحظہ ہو:
خزاں رسیدہ ہوئے آج وہ تمام ورق
کہ جن میں ہم نے کبھی تھاتجھے آباد کیا
اللہ کریم نے میرے اور میرے شوہر کے مزاجوں میں بے انتہاءیکسانیت عطا فرما ئی ۔ دونوں کے مشاغل یعنی لکھنا پڑھنا، تقریبات کی ہوسٹنگ اور انعقاد وغیرہ ایک سے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ایمن ظہیر ہوم آٹومیشن سسٹم میںپراجیکٹ انجینیئر ہیں۔ اخبارات اورویب سائٹس پر نیوز رپورٹنگ بھی کرتے ہیں۔ 2010 ءسے پاکستان رائٹرز کلب سے وابستہ ہیں ۔جہاںوہ جنرل سیکریٹری کے فرائض بھی ادا کرچکے ہیں ۔ مملکت میں موجود دیگر انجمنوں سے بھی وابستہ ہیں۔ آجکل پی ڈبلیو سی یعنی پاکستان رائٹرز کلب کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ہیں۔ انہی کی وجہ سے میںبھی پی ڈبلیو سی کے ویمنز سیکشن میں ہوں۔ ہم دونوں ٹیچر اور طالب علم کی طرح معاون ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ایک اور ایک11 ہوتے ہیں۔ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام ہے جس نے مجھے مزید کامیابیوں سے نوازاہے۔
ایمن ظہیر نے کہا کہ میرے والدین نے قندیل کو بہو نہیں بلکہ بیٹی جانا ہے۔ والدہ ہمارے بچوں اسماعیل اور زہرہ کو سنبھالتی ہیں یوں وہ ہمیں اپنے کام کاج نمٹانے میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔ اس پر ہم ان کے مشکور ہیں۔ کامیابیوں کیلئے راستے ہموار ہونگے تو خوشیاں ہی مقدر بنتی ہیں اور یہ مشترکہ کاوشوں کاہی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ رشتوں سے گندھا ہے ۔ باپ کے حوالے سے سوچیں تووہ ایک ذمہ دار ،سرپرست، خیرخواہ اور کفیل ہوتا ہے جبکہ ماں کے حوالے سے جو تصویر بنتی ہے وہ محبت، مامتا، ایثار و قربانی کے رنگوں سے سجی ہوتی ہے ۔ اکتسابی رشتوں میں نند، دیورانی، جٹھانی وغیرہ شامل ہیں جنہیں نبھانے کے لئے خاص محنت درکار ہوتی ہے۔ قندیل نے نہایت شعور سے سسرال کے تمام رشتوں کی محبتیں وصول کرلیں ۔ 
قندیل نے کہا کہ میری ساس نے مجھے جو اعتماد دیا وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔ ان کی شخصیت میں بائنڈنگ فیکٹر یعنی جڑنے اور جوڑنے کی خوبی زیادہ ہے۔ زبان و عمل سے کبھی اختلاف نہیں ہونے دیتیں۔ سسر یعنی بابا جانی نے باپ اور دوستوں کا سا رویہ رکھ کر مجھے آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا۔ اللہ تعالیٰ انہیں خوش و آباد رکھے، آمین۔
میرے شوہر کے دیئے ہوئے اعتماد نے میری شخصیت سے اس خوف کو رفع کیاجو مجھ میں میکے کی زندگی میں سرایت کرگیا تھا۔ اپنی امی کی خاموش زندگی سے میں اپنے مستقبل کے بارے میںپراعتماد نہیں رہی تھی لیکن یقینا اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے وہ بندے کے لئے بہترین ہوتا ہے ۔میں میڈیا کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ ازدواجی زندگی شعور کا پہلا باب ہے۔ شوہر اور اس سے منسلک رشتوں کو منفی نظر سے پرکھنے کی بجائے مشاہداتی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ انسان کو کانٹوں سے نبر د آزما ہونے کا ہنر بھی آنا چاہئے۔ ہمارے الفاظ ہمارے تصور سے زیادہ وزنی ہوتے ہیں۔ ان کی تندی دراڑوں کا باعث بنتی ہے۔
قندیل نے کہا کہ میری امی نے دہرا کردار ادا کیا اور ہمیں باپ کی دوری کا احساس نہیں ہونے دیا لیکن ان کے چہرے کے تاثرات ان کی دلی کیفیات کو ظاہر کرتے تھے۔ ہماری ساری محبتیں ماں کے ساتھ رہیں، اب سوچتی ہوںکہ شاید باپ بھی مجبور ہو ںیاانہیں مجبور کردیاگیا ہو۔ خیر اب تو قصہ پرانا سمجھ کر سب بھولنا ہی ہوگا ۔ بلا شبہ وفا ہر کام ورشتے کی پہلی شرط ہے۔ اخلاقیات کی اعلیٰ قدروں پر گرفت مضبوط رکھی جائے تو ہر دلعزیزی قدم چومتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: