Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم کیس، ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے چھ اکتوبر کی تاریخ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر سمیت 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے چھ اکتوبر کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔
جمعرات کو سیشن عدالت میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت چھ ملزمان کوپیش کیا گیا اور دوران سماعت ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کی گئیں۔
ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کی درخواستوں پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں نور مقدم قتل کیس میں ملزمان ذاکر جعفر اور عصمت جعفر کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
درخواست گزار  کے وکیل وکیل شاہ خاور نے موقف اپنایا کہ صدارتی آرڈیننس کے تحت نور مقدم کیس کا ٹرائل سپیشل کورٹ میں ہونا چاہیے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ قانون پروسیجرل ہوتا ہے، آرڈیننس کی مدت اب ختم ہو چکی ہے۔ کیس کا ٹرائل سپیشل کورٹ کے نہیں بلکہ سیشن کورٹ کے طور پر ہونا ہے۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’آپ کیا کہتے ہیں کہ ایک بار کی سپیشل کورٹ ہمیشہ کے لیے سپیشل کورٹ ہے، آپ کے دلائل سے لگتا ہے کہ آپ ٹرائل کو تاخیر کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔‘
جس پر درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور نے موقف اپنایا کہ ’میرا قطعاً مقصد کیس کو تاخیر کا شکار کرنا نہیں ہے۔‘ عدالت نے کہا کہ ’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کا اختیار نہیں تو اس متعلقہ عدالت میں یہ درخواست دیں۔‘
وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ ’مرکزی ملزم ظاہر جعفر وقوعہ کے روز اپنے والدین سے مسلسل رابطے میں تھا، چالان پیش ہو چکا ہے، فرد جرم عائد ہونا باقی ہے۔ پراسیکیوشن نے 18 گواہ بنائے ہیں جن میں سے تین چار اہم گواہ ہیں، جلد ٹرائل مکمل ہو گا۔‘
شاہ خاور ایڈووکیٹ نے عدالتی فیصلوں کے حوالہ جات پیش کیے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’کال ڈیٹا ریکارڈ 18 سے 20 جولائی کا ہے۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ ’اندازاً قتل کا وقت کیا ہے جس پر ایڈووکیٹ شاہ خاور نے بتایا کہ ’شاید سوا سات سے ساڑھے سات بجے کے درمیان  یہ واقعہ ہوا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق نور مقدم نے 6:35 پر چھلانگ لگا کر جان بچانے کی کوشش کی۔‘

وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ ’مرکزی ملزم ظاہر جعفر وقوعہ کے روز اپنے والدین سے مسلسل رابطے میں تھا (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ اس وقت نور مقدم زندہ تھیں۔‘ عدالت نے ایک بار پھر استفسار کیا کہ پولیس کو واقعہ کس نے اور کتنے بجے رپورٹ کیا جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ ’ایک زبیر نامی شہری نے 9:45 پر پولیس کو رپورٹ کیا جو دس بجے تک موقع پر پہنچ گئی تھی۔ 
انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت تھراپی ورکس والے وہاں موجود تھے۔
جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ تھراپی ورکس والوں اور درخواست گزاروں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ ظاہر جعفر کی والدہ تھراپی ورکس والوں کے لیے بطور کنسلٹنٹ کام کرتی رہی ہیں۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے سے موبائل فونز کی فرانزک رپورٹ آنا باقی ہے، ایف آئی اے نے خط لکھا ہے کہ مرکزی ملزم کے موبائل کی سکرین ٹوٹی ہوئی ہے۔

سرکاری وکیل نے بتایا کہ ظاہر جعفر کی والدہ تھراپی ورکس والوں کے لیے بطور کنسلٹنٹ کام کرتی رہی ہیں (فوٹو: سکرین گریب)

تفتیشی افسر کے بقول ’مقتولہ نور مقدم کے موبائل کا سیکیورٹی پاسورڈ بھی نہیں کھل رہا۔‘ جسٹس عامر فاروق نے تفتیشی افسر سے کہا کہ ’آج کل بہت سے ایکسپرٹ بیٹھے ہیں جو سب کچھ کر لیتے ہیں، مارکیٹ میں بڑے بڑے ہیکرز بیٹھے ہیں کسی کو پکڑیں کھول دے گا۔‘
خواجہ حارث نے جوابی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی نامکمل عبوری چالان پیش ہوا ہے، ذاکر جعفر نے سات بج کر سات منٹ پر تھراپی ورکس والوں کو گھر پہنچنے کا کہا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
یاد رہے کہ 20 جولائی کی شام اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر کی 28 سالہ نور مقدم کو گلا کاٹ کر قتل کر دیا گیا تھا جس کا مقدمہ تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا تھا۔

شیئر: