یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ اللہ نے انسان کو دو متضاد جنسوں یعنی مردانہ اور زنانہ میں تخلیق کر کے اس دنیا میں بھیجا اور یہ کہ انسان پیدائشی طور پر جنس مخالف میں کشش محسوس کرتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کے وہ مخالف جنس کی سرزنش کرے۔ بلکہ اُس پر واجب ہے کہ وہ اپنی مخالف جنس کا احترام خود پر لازم سمجھے۔
چنانچہ ہم اپنے آس پاس کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ ہم بیسوں صدی میں سانس لے رہے ہیں، مگر آج بھی ہر فرد باالخصوص عورت معاشرے میں جنسی تفریق کا شکار ہو کر گھٹ گھٹ کر سانس لے رہی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ جنسی تفریق میں ہمارے ملک کا نچلہ ترین درجہ ہے۔ جب کہ اس صدی میں صرف اُن قوموں نے ترقی کی ہے، جنہوں نے جنس کی تفریق یعنی مردانہ اور زنانہ سے نکل کر منصفانہ وسائل اور حقوق کی تقسیم کی ہے۔
مزید پڑھیں
-
دیہات، دیہاتی اور دہقان: لفظوں کی اصل کا دلچسپ اشتراکNode ID: 603846
-
’دنیا کی آخری امید، مودی‘: یہ خبر جھوٹ ہےNode ID: 604596
-
دیکھنا دیدۂ پُر آب کا رنگNode ID: 606041
آپ کی نظر میں ایک پسماندہ معاشرہ کیسا ہوتا ہے؟ ظاہر سی بات ہے جہاں وسائل کی تقسیم منصفانہ طور پر نہ کی جاتی ہو۔ جہاں اپنے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہو، باقی افراد کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا جاتا ہو۔ اب ان نامساعد معاشرتی حالات میں خواتین اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کا استحقاق رکھتی ہیں۔ جبکہ آئین پاکستان کے مطابق بھی ہر فرد کو اظہار رائے کرنے کا حق ہے۔
رنگ، نسل، زبان، قومیت اور جنس سے ہٹ کر ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ سب انسان برابر ہیں، جن کو درجوں میں تقسیم کرکے ان کے حقوق پامال نہیں کیے جاسکتے۔ جب ہی انسان اپنی پیدائش کو شرمندگی یا تفاخر کا باعث نہیں سمجھے گا۔ یہ تو قدیم معاشروں کا شیوہ ہے، جس نے مردانہ اور زنانہ کی تفریق کو جنم دیا۔ جس وجہ سے مرد اور عورت کے درمیان لکیریں کھینچی گئی ہیں، جس پر ہم بحث کرکے اپنا ذہن صرف کر رہے ہیں۔
ان قدیم معاشروں میں طاقت پر اپنی اجارہ داری قائم کی جاتی تھی، چونکہ طاقت کا مظاہرہ جنگل کا دستور ہے۔ جدید معاشروں میں تہذہب، تمدن اور عقل کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے فرد کو حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ آج کے جدید دور میں حقوق کی تقسیم طاقت، فرسودہ نظریات کے ذور پر جبر و تشدد، ناانصافی ہی تصور کی جاتی ہے۔ آج مرد و عورت کے حقوق کی تقسیم دلیل کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
ہمارے ملک کے ان نامساعد حالات میں کافی مردوں اور عورتوں نے تہذیب و تمدن اور عقل کی بنیاد پر ملک میں متوازن سوچ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن فرسوده معاشرتی اقدار نے ان کی مثبت سوچ کو پھلنے پھولنے نہیں دیا، جس بنا پر معاشرے میں مردانہ اور زنانہ تفریق ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
لہذا جب بھی کوئی فرد اپنے حقوق کی فراہمی کا شکوہ ظاہر کرے، تو سب سے پہلے اس کے مطالبات کو سُن کر حتمی نتائج تک پہنچنا چاہیے۔ چونکہ مَن گھرٹ قصے کہانیاں گھڑ لینا فرسوده معاشرتی سوچ کی علامت ہے۔ جبکہ مساوی حقوق کی تحریکیں صرف عورت اور مرد سے تعلق نہیں رکھتیں، بلکہ پوری انسانیت کی مشترکہ میراث ہوتی ہیں۔
بلاگر: خطیب احمد، طالب علم ہیں، صحافت اور اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔