Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وطن سے خط ملتا تو ایسا لگتا عیدآگئی ہو

 

کئی خط ایک ساتھ ملا کرتے پھر یہ ہوتا کہ پاکستان سے کسی خط کا جواب آتا تو جیسے کتابوں میں ریفرنس ہوتا ہے کہ 01کا جواب 02کا جواب ایسے ہی خط لکھا ہوتا یہ 01کا جواب ہے یہ02کا

 

مصطفی حبیب صدیقی۔ جدہ

 

’’وطن سے خط آتا تو ایسا لگتا جیسے عید آگئی ہو،خوشی ایسی جس کا اظہار ناممکن ،آنکھیں نم مگر روتے ہوئے شرم ‘‘ یہ الفاظ ہیں سعودی عرب میں گزشتہ 35سال سے مقیم الطاف بھٹی صاحب کے ۔ الطاف بھٹی صاحب کی کہانی میں وطن سے محبت بھرپور نظر آئی۔ گفتگو کے دوران میں نے جب چاہا کہ ان کے ماضی میں جھانکتے ہوئے ان سے پوچھوں کہ ’’الطاف بھٹی صاحب بڑا عرصہ وطن سے دور گزار دیا کمی تو محسوس ہوئی ہوگی تو جھٹ سے بولے۔ ’’بھئی وطن کی کمی محسوس ہوناتو فطری ہے مگر یہ سعودی عرب کیا ہمارا وطن نہیں؟میں نے زندگی کی آدھی عمر یہاں گزاری ہے،بہت کچھ دیا ہے اس وطن نے مجھے ،مجھے ہی کیا لاکھوں کروڑوں لوگوں پر احسان ہے اس وطن کا ۔ لیکن یہ تو بتائیں کہ آپ یہاں کب آئے اور کیسے وقت گزرا ،دن کٹھن تھے ،راتیں طویل تھیں ، 35سال پہلے تو یہاں اتنی سڑکیں بھی نہیں تھیں۔میرے سوال پر الطاف بھٹی صاحب نے اپنی کہانی ایسے شروع کی جسے ماضی کے دریچوںکو کریدتے ہوئے خوشگوار یادوں کے جھرمٹ میں کہیں دکھ کو چھپارہے ہوں۔ ’’یار جب میں 35سال پہلے 1981ء میں یہاں آیا تو میرے لئے یہ سب بہت نیا تھا،میں اصل میں حافظ آباد کے ایک گائوںکا رہائشی تھا،بھائی اسلام آباد میں تھے ،1974ء میں بھائی نے اسلام آباد میں ہی ایک سرکاری ملازمت دلادی،پنجا ب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا اس لئے ملازمت میں بھی زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔1981ء میں یہاں الخبر میں آیا ،کنٹریکٹ کمپنی تھی اس میں کمپیوٹر ڈیٹا انٹری آپریٹر تھا ،پھراسی کمپنی نے85ء میں جدہ منتقل کردیا بہت اچھا وقت گزرا‘‘۔ میرے مالکان بہت تعاون کرتے تھے،ٹیم ورک تھا بڑا مزا آتا تھا،میں نے90ء میں فیملی بلالی،ہم بہت گھومتے پھرتے تھے۔ میری 2بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ،ہم اکثر جمعرات کو مدینے چلے جاتے اور جمعہ پڑھ کر آتے،مکہ تو جاتے ہی رہتے تھے۔یہاں رہنے کا یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔یہاں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کے بچے خود بخود دینی ماحول میں پرورش پاتے ہیں ۔اجتماعی ماحول ایسا ہے کہ بچوں کی تربیت ہوتی رہتی ہے یہ فوائد آپ کو یورپ یا امریکہ میںنہیں ملیں گے۔ پاکستان کا معاشرہ کھوکھلا ہے،وہ بظاہر خوش نظر آتے ہیںمگر حقیقتاً خوش نہیں۔تعلیم وتربیت کا بڑا مسئلہ ہے ہمارے معاشرے کے لوگوں کیلئے وہاں پر ہاں البتہ دور رہنا آسان نہیں ،بڑی قربانی دینی پڑتی ہے ،بہت سے پیارے چلے گئے ۔ایسے لوگ جن سے ملنے کی تمنا رہی،مگر میں یہاں اپنی ملازمت اور گھریلوذمہ داریوں کی وجہ سے نہ جاسکا ،جس کی کسک ہے تاہم یہ ہی دنیا ہے ،میں ایک بات بتائوں کہ سب سے بڑھ کر جو حادثہ میرے ساتھ ہوا وہ میرے ہمسفر کا مجھ سے بچھڑ جاناتھا۔ وہ1990ء میں یہاں آگئیں تھیں اچھی زندگی گزررہی تھی،ہم بہت خوش تھے کہ 2004ء میں اچانک ایک دن ایئرپورٹ جاتے ہوئے میری اہلیہ کو برین ہمبرج ہوا اور اسپتال میںچند دن گزار کر وہ چل بسیں ۔پھر پورا گھر ہی بکھر گیا۔میں بھی بکھر گیا(الطاف صاحب کی آنکھوںمیںایک مرتبہ پھر آنسو تھے)۔پھر میں نے مجبوراًبچوں کو پاکستان بھیجا اب تو خیر سے سب پڑھ لکھ کر شادی شدہ ہوگئے۔ یہاں میڈیا تک رسائی ایک مسئلہ تھا،81ء میں تو سڑکیں بھی نہیں تھی صحیح طرح،اس وقت اخبار پاکستان سے آتا تھا جو کئی دن پرانا ہوتا تھا،ہم 22کلومیٹر جاکر بلد سے اخبار خریدتے تھے کہ پاکستان کی کوئی اطلاعات ہم تک پہنچیں پھر یہاں اردونیوز کی اشاعت ہوئی جس سے کافی سہولت ملی اور وطن کی خبروں سے آگاہی ہوتی رہی۔ جب خط آتا تو لگتا تھاکہ عید آگئی ۔ خط میں اچھی بری خبریںملتی رہتی تھیں،کئی خط ایک ساتھ ملا کرتے تھے ،اور جو ہم بھیجتے وہ بھی ایک ساتھ ہی پہنچا کرتے تھے،پھر یہ ہوتا تھا کہ پاکستان سے کسی خط کا جواب آتا تو جیسے کتابوںمیں ریفرنس ہوتا ہے کہ 01کا جوا ب ،02کا جوا ب ایسے ہی خط پر لکھا ہوتا یہ 01کا جواب ہے ،02کا ہے۔۔۔ایک مرتبہ والدین کی طبیعت خراب ہونے کی اطلاع ملی بڑا مشکل وقت تھا مگر روزگار سے مجبور تھے،برداشت کیا ،دل ہی دل میں کڑھتے رہے، یہی زندگی ہے ،ویسے یہاں کی زندگی بہت پرسکون اور آرام دہ ہے ،بہت کچھ کمایا یہاں سے لوگوں نے ۔ چلیں کچھ آپ کے گھریلوکام کے بارے میں بات ہوجائے،جب اکیلے رہتے تھے تو کھانا وغیرہ خود پکاتے ہونگے ،یعنی بڑا اچھا کھانا پکانا آگیا ہوگا آپ کو تو بھٹی صاحب۔۔میں تھوڑا سنجیدگی کو موڑناچاہتا تھا۔ بھٹی صاحب کہنے لگے ’’نہیں اس وقت میر ے بڑے بھائی بھی یہیں تھے ،وہ اور میں ایک دوست ہیں،ہم میں بہت پیار ہے،انہوںنے ہمیشہ میرا بہت خیال رکھا ہے،اس وقت بھی وہی کھانا پکاتے تھے ہم ان کی مدد کردیا کرتے جیسے کچھ کاٹنا پیٹنا ہے یا برتن دھونا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب میں پاکستان واپس جانا چاہتا ہوں،60سال کا ہوگیاہوں اب وہاںجاکر اپنے بچوں او ر پوتے پوتیوںمیں رہوں گا،زندگی کچھ انجوائے کروںگا،کام تو پوری زندگی کیا ہے ،اور اب مجھے کیا ضرورت ہے ملازمت کی ،بیٹے ہیں ان کے ساتھ ہی رہوں گا۔

٭٭٭٭٭٭

شیئر: