Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش میں کمیونٹی رہنما کے قتل کے بعد کریک ڈاؤن، 172 روہنگیا گرفتار

کمیونٹی رہنما کو پناہ گزین کیمپ میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا( فوٹو اے ایف پی)
بنگلہ دیش کی پولیس نے ایک سرکردہ کمیونٹی رہنما کے وحشیانہ قتل کے بعد شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے دوران حالیہ ہفتوں میں 172 روہنگیا افراد کو گرفتار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کےمطابق  کمیونٹی رہنما محب اللہ کو ستمبر کے آخر میں کاکس بازار کے بندرگاہی شہر کے قریب ایک پناہ گزین کیمپ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا، اس علاقے میں بے وطن مسلم اقلیت کے سات لاکھ سے زیادہ ارکان رہتے ہیں جو میانمارمیں 2017 کے فوجی کریک ڈاؤن کے بعد یہاں آئے تھے۔
48 سالہ استاد کو چند ہفتوں قبل انہیں اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (اے آر ایس اے) عسکریت پسند گروپ کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی تھیں۔
ایلیٹ آرمڈ پولیس بٹالین (اے پی بی) کے کمانڈر نعیم الحق نے کہا ہے کہ کیمپوں میں شرپسندوں کے خلاف ہماری مہم جاری رہے گی۔
 ایک بیان میں کہا کہ حراست میں لیے گئے مزید 114 افراد نے خود کو اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کا رکن قرار دیا تھا۔
بنگلہ دیش معمول کے مطابق اس بات کی تردید کرتا ہے کہ باغی پناہ گزین کیمپوں میں کام کرتے ہیں، اس کے بجائے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلح تشدد اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث مجرم اپنی ساکھ پر تجارت کرنے کے لیے گروپ کا نام استعمال کرتے ہیں۔
لیکن محب اللہ کے اہل خانہ اور ساتھیوں نے ان کے قتل کا الزام اس گروپ پر عائد کیا ہے تاہم اراکان روہنگیا سالویشن آرمی اس الزام سے انکار کرتی ہے۔
پولیس نے 70 سے زائد افراد کو وہاں سے منتقل کیا ہے جن میں مقتول وکیل کے اہل خانہ اور سات افراد کے رشتہ دار شامل ہیں جنہیں گزشتہ ماہ ایک مدرسے پر حملے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ایک اور حملے کا الزام عسکریت پسندوں پر لگایا گیا تھا۔
سینئیر افسر کامران حسین نے کہا کہ ’ان واقعات کے بعد متاثرین کے تمام خاندان خوفزدہ تھے۔‘
نورالاسلام، ایک روہنگیا پناہ گزین جس کا بیٹا سکول حملے میں مارا گیا تھا، نے کہا کہ ان کے خاندان کو کیمپوں میں رہنے سے بہت ڈر لگتا ہے۔
انہوں نے فون پر کہا کہ ’تمام روہنگیا اراکان روہنگیا سالویشن آرمی سے غیر محفوظ ہیں۔ وہ ہمیں مارنا چاہتے ہیں، وہ عدم استحکام چاہتے ہیں۔‘

 

شیئر: