Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان میں مہنگائی پر صبر کریں، طوفان جلد گزر جائے گا‘

مہنگائی سے متاثر افراد حکومتی موقف ماننے کو تیار دکھائی نہیں دیتے (فوٹو: پکسابے)
پاکستان میں شدید مہنگائی کے بعد بدانتظامی، بدعنوانی اور دیگر طعنوں کا سامنا کرنے والی حکمراں جماعت تحریک انصاف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے مہنگائی سے متعلق پیغامات اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے شیئر کر کے نئی بحث چھیڑ دی۔
ٹوئٹر کی ٹرینڈز لسٹ میں ’سرخرو ہو گا عمران خان‘ کے عنوان سے وزیراعظم کی حمایت اور ایک پاکستانی صحافی و کالم نگار کے خلاف الگ الگ ٹرینڈز بنائے گئے، جہاں پی ٹی آئی کے حامی ٹویپس حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے اس پر تقنید کرنے والوں کو نشانے پر رکھے رہے ہیں۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے اوورسیز پاکستانیوں کے کئی ایسے پیغامات شیئر کیے گئے جس میں وہ پاکستان میں موجود مہنگائی پر زیادہ واویلا نہ کرنے اور طوفان گزرنے کے لیے مزید کچھ مہینے صبر کا مشورہ دیتے دکھائی دیے۔
ایسی ہی ایک ٹویٹ میں ’امریکہ میں مقیم مصباح اختر‘ کا ویڈیو پیغام بھی شیئر کیا گیا۔ جس میں وہ امریکہ میں گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کے بڑھنے کا تذکرہ کرتی دیکھی جا سکتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت پر پورا طوفان پھینکا ہوا ہے کہ یہ (مہنگائی) حکومت کر رہی ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ جینوئن ریزن ہے تو اس پر ہمیں تھوڑا ٹائم دینا چاہیے۔‘
اس مشورے کے بعد ہونے والی گفتگو میں جہاں کچھ صارفین نے ان سے سوال کیا کہ امریکہ میں فی کس اوسط آمدن بھی اتنی ہی ہے جتنی پاکستانیوں کی ہے وہیں انہیں یہ تجویز بھی دی گئی کہ انہوں نے بیرون ملک اپنی زندگی کو کیوں مشکل میں ڈال رکھا ہے فورا پاکستان آجائیں۔

ایک اور ٹویٹ میں ’انگلینڈ میں موجود فرد‘ کو وہاں پیٹرول کی قیمتوں کا ذکر کرتے دکھایا گیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’پاکستان میں لوگوں نے جو تیل کی وجہ سے ایشو بنایا ہوا ہے۔ یہاں اور پاکستان کی قیمتوں میں پچاس فیصد تک کا فرق ہے۔ مہنگائی ہر جگہ آئی ہے جس طرح پاکستانی حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کیا ہے ایسے یو کے یا یورپ میں نہیں کیا گیا ہے۔‘
ویڈیو میں موجود فرد اپنے پیغام میں کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو چاہیے عمران خان کو سپورٹ کریں۔‘
پی ٹی آئی ہینڈل سے دیگر ملکوں میں مہنگائی سے متعلق پیغامات پر تبصرہ کرنے والی ڈاکٹر عائشہ نامی ایک ٹویپ نے لکھا کہ ’ہمت کرو اور پاکستانی پیٹرول پمپ پر کھڑے ہو کر لوگوں کے انٹرویو کرو، جو کچھ وہ بولیں بغیر سینسر کیے اپ لوڈ کر دو۔ شاباش ہمت کرو۔‘

پی ٹی آئی کے ہینڈل سے حکومت پر مہنگائی کی وجہ سے جاری مسلسل تنقید کے جواب کے طور پر صرف اوورسیز پاکستانیوں کے پیغامات ہی نہیں شیئر کیے گئے، بلکہ حکومتی شخصیات یا اپنے حامی ٹویپس کے ایسے مواد کو ری ٹویٹ بھی کیا گیا جس میں ملک سے باہر دنیا کے دیگر حصوں میں مہنگائی کو نمایاں کیا جاتا رہا۔ 
وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے انڈیا کی مودی سرکار کے ایک وزیر کا مہنگے تیل سے متعلق ایک بیان ٹویٹ کیا تو آفیشل ہینڈل سے اسے بھی ریٹویٹ کیا گیا۔

گزشتہ چند روز کے دوران اپنی الگ الگ تقاریر میں وزیراعظم عمران خان بھی ملک میں مہنگائی خصوصا اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے کو عالمی مارکیٹ کے رجحان سے منسلک کرتے رہے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں امریکہ سمیت دیگر ملکوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا موازنہ پاکستان میں رائج قیمتوں سے کرتے رہے ہیں۔
مہنگائی سے نالاں افراد نے وزیراعظم کی سابقہ تقاریر کا حوالیہ دیتے ہوئے ،وقف اپنایا کہ ماضی میں تو وہ مہنگائی کی وجہ کے طور پر عالمی رجحانات کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ایسے ہر موقع پر دیگر ملکوں کے مکینوں کی بہتر اوسط آمدن کا ذکر کرتے ہوئے ان پر مہنگائی کے مختلف اثرات اور پاکستان میں ایسا ہونے کو عوام پر ظلم سے تعبیر کرتے تھے۔ اگر اس وقت کے حکمرانوں پر مہنگائی سے متعلق تنقید کے لیے عالمی مہنگائی جواز نہ تھی تو موجودہ حکومت کے لیے یہ جواز کیسے ہو سکتی ہے۔
حکومت اور اس کے حامی پاکستان میں مہنگائی کی ذمہ داری عالمی رجحانات پر ڈالتے ہیں تاہم حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ جو اشیا ملک میں موجود ہیں یا رہی ہیں ان کی حد سے زیادہ بڑھتی قیمتیں تو عالمی مارکیٹ سے متعلق نہیں، پھر وہ کیوں تواتر سے مہنگی ہو رہی ہیں۔

اوورسیز پاکستانیوں کے مہنگائی پر حکومتی موقف سے ملتے جلتے تبصرے پی ٹی آئی کی جانب سے شیئر کیے گئے تو دیگر ملکوں میں مقیم کچھ دیگر پاکستانی اس سے برعکس رائے کا اظہار بھی کرتے رہے۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانی ماہر تعلیم اسامہ شفیق نے ایک ٹویٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گراوٹ کو موضوع بنایا تو موجودہ حکومت سے پہلے اور اس وقت روپے کی قدر کا فرق اپنی ٹویٹ کا حصہ بنایا۔

سے متعلق مہنگائی کی وجوہات سے متعلق حکومتی موقف سے اتفاق نہ کرنے والے ٹویپس کا کہنا تھا کہ چینی کی قیمتوں میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران فی کلو 50 روپے سے زائد اضافہ اور آٹے کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ اور بار بار ایسا ہونے کے باوجود مسئلہ حل نہ ہونا حکومتی نااہلی اور بدانتظامی ہے۔

شیئر: