Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نریندر مودی کے زرعی قوانین واپس لینے کے اعلان کے پیچھے وجہ کیا؟

انڈیا میں وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان بہت سے لوگوں کے لیے ایک سرپرائز رہا جہاں ہزاروں کسان ملک کی مختلف ریاستوں سے دہلی آ کر احتجاج کر رہے ہیں۔
گزشتہ ایک برس سے جاری کسانوں کے اس احتجاج کو نریندر مودی کی حکومت کے خلاف اب تک کے سب سے بڑے چیلنج کے طور پر دیکھا گیا۔
خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مودی حکومت کے اس اچانک فیصلے کے اعلان کی ایک بڑی وجہ الیکشن ہو سکتے ہیں۔
انڈیا کے سب سے موثر ووٹنگ بلاک کے کسان اور سیاست دان عرصے سے کہہ رہے تھے کہ ان کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ دانشمندانہ نہیں۔
یہ طبقہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے تاہم گزشتہ برس ستمبر سے زرعی قوانین کے خلاف سڑکوں پر ہے۔

کن ریاستوں میں الیکشن ہونا ہیں؟

انڈیا کی بعض اہم ریاستوں میں اگلے برس کے اوائل میں الیکشن ہونا ہیں۔ ان ریاستوں میں سب سے گنجان آبادی والے اترپردیش اور پنجاب شامل ہیں، بھارتیہ جنتا پارٹی کو امید ہے کہ وہ اترپردیش میں دوبارہ اکثریت لے کر اقتدار میں آئے گی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق  مودی حکومت کے اس اچانک فیصلے کے اعلان کی ایک بڑی وجہ الیکشن ہو سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)

ان دونوں ریاستوں میں کسانوں کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے خاص طور پر پنجاب میں کسانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
نریندر مودی کی جماعت اترپردیش میں حکمران ہے تاہم وبا کے دوران اپنی کارکردگی اور دگرگوں معاشی حالات کے باعث سخت دباؤ کا شکار ہے۔ اگر کسانوں نے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ نہ دیا تو نہ صرف ریاست میں دوبارہ برسر اقتدار آنا مشکل ہوگا بلکہ سنہ 2024 کے قومی انتخابات میں بھی اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

نریندر مودی کی جماعت اترپردیش میں حکمران ہے تاہم وبا کے دوران اپنی کارکردگی اور دگرگوں معاشی حالات کے باعث سخت دباؤ کا شکار ہے۔ (فوٹو: اے پی)

ریاست اتر پردیش سے مرکز میں 80 قانون ساز بھیجے جاتے ہیں جبکہ پارلیمنٹ کے کُل ارکان کی تعداد 552 ہے۔
مودی کی پارٹی کے ریاست پنجاب میں بہت کم ووٹرز ہیں تاہم بی جے پی کو امید ہے کہ وہ پڑوس کی زرعی ریاست ہریانہ کی طرح یہاں بھی اپنی پوزیشن مضبوط بنا کر حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق نریندر مودی کے اعلان سے کسان اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی حکومت کا حالیہ سرپرائز بالآخر پارٹی کی کامیابی میں مددگار ثابت نہیں ہوگا۔
نئی دہلی کی اشوکا یونیورسٹی  میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر گیلز ورنیئرز کہتے ہیں کہ ’یہ قبل از وقت ہوگا اور واضح نہیں کہ کیسے پالیسی سازی میں ناکامی الیکشن میں کامیابی میں تبدیل ہوگی۔‘

اس فیصلے میں احتجاج کرتے کسانوں کے لیے کیا ہے؟

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مودی حکومت کا فیصلہ کسانوں کی جیت ہے، کم از کم فی الوقت تو یہ اُن کی کامیابی ہے۔
گزشتہ برس ستمبر میں جب یہ قوانین پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے تب سے احتجاج کرتے کسانوں نے دہلی کی سرحدوں پر ڈٰیرے ڈال رکھے ہیں۔
اس دوران سخت سرد موسم اور بدترین وبا کورونا وائرس بھی اُن کے حوصلے پست نہ کر سکی۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مودی حکومت کا فیصلہ کسانوں کی جیت ہے۔ (فوٹو: اے پی)

زرعی قوانین کے خلاف انڈین کسان ملک گیر احتجاج کر رہے ہیں اور نئی دہلی کی جانب مارچ کے ساتھ مختلف ریاستوں میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
ابتدا میں مودی حکومت نے کسانوں سے مذاکرات کیے اور یہ پیشکش کی کہ زرعی قوانین کو 18 ماہ یا ڈیڑھ برس کے لیے معطل کیا جا سکتا ہے تاہم کسان اپنے اس مطالبے پر قائم رہے کہ ان قوانین کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔
گزشتہ ایک برس کے دوران درجنوں کسانوں نے خودکشی کی، بدتر موسمی حالات اور کورونا وائرس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں گئے جس نے ان کے لیے عالمی حمایت میں اضافہ کیا۔

کسان رہنما کہتے ہیں کہ ان کو وزیراعظم یا مرکزی حکومت پر اعتبار نہیں رہا۔ فوٹو: اے ایف پی

جنوبی تلنگانہ ریاست کے کسان رہنما کرن وسا نے کہتے ہیں کہ ’یہ کسان تحریک کی بہت بڑی کامیابی ہے اور ان سب کے لیے بڑا حوصلہ افزا ہے جو ایک برس سے احتجاج کر رہے ہیں۔‘
پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر گیلز ورنیئرز ان کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’کسان اس کو اپنی جیت کے طور پر دیکھیں گے نہ کی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کسی اچھے فیصلے کے طور پر۔‘

کیا اس اعلان سے کسانوں کا احتجاج ختم ہو جائے گا؟

تجزیہ کاروں کے مطابق نریندر مودی کے اعلان سے کسان اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔
کسان رہنما کہتے ہیں کہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پارلیمنٹ میں ان قوانین کو باضابطہ طور پر ختم نہیں کیا جاتا۔ پارلیمنٹ کا اجلاس اگلے ماہ دسمبر میں ہونا ہے۔

کسان رہنما کرن وسا کے مطابق زیادہ تر احتجاج کرنے والوں کو وزیراعظم یا مرکزی حکومت پر اعتبار نہیں ہے (فوٹو: اے پی)

کسانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت بعض فصلوں کی مخصوص قیمتوں کی ضمانت نہیں دیتی۔ انڈیا میں ساٹھ کی دہائی میں فصلوں کی ایک مخصوص قیمت مقرر کرنے کا نظام تشکیل دیا گیا تھا تاکہ ملک کو زرعی اجناس میں خودکفیل بنا کر غذائی قلت پر قابو پایا جا سکے۔
کسان رہنما کرن وسا کے مطابق زیادہ تر احتجاج کرنے والوں کو وزیراعظم یا مرکزی حکومت پر اعتبار نہیں ہے اس لیے پارلیمان میں قوانین کے خاتمے تک کسان سڑکوں پر رہیں گے۔

شیئر: