Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میری خواہش تھی کہ میں ایک لڑکی ہوتا‘ سونو نگم نے ایسا کیوں کہا؟

سونو نگم نے کہا کہ لڑکیوں کو بھی ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کے لیے تکلیف دہ ہوتے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)
انڈین میوزک انڈسٹری میں کئی سالوں میں کچھ باصلاحیت گلوکارائیں سامنے آئی ہیں تاہم اب بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انڈسٹری میں صنفی برابری بہت کم ہے اور یہاں مردوں کی اجارہ داری ہے۔
انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز نے انڈین میوزک انڈسٹری کے نامور گلوکاروں سے بات کر کے جاننے کی کوشش کی ہے کہ خواتین کے حوالے سے اس تاثر میں کس حد تک صداقت ہے۔
مشہور پلے بیک سنگر سونو نگم کا کہنا ہے کہ ’سچ کہوں تو بطور گلوکار جو اپنی کم عمری میں ممبئی محنت کرنے آیا، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں لڑکی ہوتا تو مجھے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔‘
اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ’تمام موسیقار، ہدایتکار، پروڈیوسرز کمپنی کے افراد سب مرد تھے۔ ان کے پاس میرے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے کی وجہ نہیں تھی۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ لڑکیوں کو جدوجہد نہیں کرنا پڑتی۔ انہیں بھی ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کے لیے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔
سونو نگم نے کہا کہ ’لیکن اس وقت میری یہ خواہش تھی کہ (کاش) میں ایک لڑکی ہوتا۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے یہاں خواتین موسیقار بھی زیادہ تعداد میں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ لتا (منگیشکر) جی اور مدن موہن جی کے درمیان جیسا جوڑ تھا یا  آشا (بھوسلے) جی او پی نئیر جی اور آر ڈی برمن جی کے درمیان جو تعلق تھا ایسا ہی جوڑ میرا کسی خاتون موسیقار کے ساتھ ہو، دو باصلاحیت افراد کے درمیان ایسا رشتہ جس میں انا نہ ہو۔‘
گلوکار شان سمجھتے ہیں’ہمارے پاس شاندار خواتین گلوکارائیں ہیں لتا منگیشکر، آشا بھوسلے جی سے لے کر سندیدھی چوہان اور شیریا گھوشال تک۔ ہمیں یقیناً مزید خواتین بطور موسیقاراور میوزک پروڈیوسر چاہییں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہاں (میوزک اندسٹری میں) صنفی جانبداری کم ہے لیکن  بالی وڈ میں مردوں پر مبنی گانوں کی طرف جھکاؤ بہت زیادہ ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔‘

شیئر: