Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرض پروگرام کی بحالی، پاکستان اور آئی ایم ایف میں سٹاف لیول معاہدہ

تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف کا اصرار تھا کہ پاکستان وفاقی بجٹ میں طے کیے گئے آمدنی کے ہدف کو بڑھائے۔ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف ) کے درمیان چھٹے جائزے کے لیے سٹاف لیول معاہدہ بلآخر طے ہو گیا ہے اور اب ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو مزید تقریباً 1.059 ارب ڈالرز ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق 'یہ معاہدہ پہلے سے طے شدہ مالیاتی اور ادارہ جاتی اصلاحات اور ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔'
یاد رہے کہ مشیر خزانہ شوکت ترین نے بھی کچھ عرصہ قبل بتایا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی راہ میں سٹیٹ بینک کی خود مختاری کے حوالے سے قانون سازی آخری رکاوٹ ہے۔
حال ہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں بھی سٹیٹ بینک کے حوالے سے کچھ قانون سازی کی گئی ہے۔
آئی ایم ایف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چھٹے جائزے کی تکمیل سے آئی ایم ایف کی جانب سے 1.059 ارب ڈالرز دستیاب ہوں گے، جس سے اب تک آئی ایم ایف کے کی کل ادائیگی تقریباً 3.027 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔‘
 یاد رہے کہ جولائی 2019 میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چھ ارب ڈالرز کی فراہمی کا معاہدہ ہوا تھا جسے سوا تین سالوں میں مکمل کیا جانا تھا تاہم اس سال معاہدے میں تعطل پیدا ہو گیا تھا اور پاکستان سے مزید اصلاحات کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
بیل آؤٹ پیکج کے چھٹے جائزے کی تکمیل کی بنیاد بنانے کے لیے پاکستان کی اقتصادی ٹیم کے اعلیٰ اراکین اکتوبر کے آغاز سے آئی ایم ایف سے بات چیت کر رہے تھے۔
اس سے قبل کچھ مقامی میڈیا اداروں نے مذاکرات کے ’ناکام ہونے‘کی رپورٹس چلائی تھیں۔

حال ہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں بھی سٹیٹ بینک کے حوالے سے کچھ قانون سازی کی گئی ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف کا اصرار تھا کہ پاکستان وفاقی بجٹ میں طے کیے گئے آمدنی کے ہدف کو بڑھائے۔
پاکستان نے اس مالی سال میں 5.83 کھرب روپے ( 39.2 ارب ڈالر) ریونیو جمع کرنے کا ہدف رکھا ہے۔
معاشی امور کے ماہر کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں اضافی ریونیو اکٹھا کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہوگا کیونکہ ضروری اشیا کی قیمتیں ویسے ہی بڑھی ہوئی ہیں۔

آئی ایم ایف منظوری کی اہمیت

معاشی امور کے ماہر صحافی مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ 'آئی ایم ایف کا پروگرام صرف مالی مدد ہی نہیں ہوتی بلکہ ملکی معیشت کے لیے ایک طرح کا سرٹیفکیٹ بھی ہوتا ہے۔'
'کیونکہ عالمی مالیاتی ادارہ ملکی معیشت کی صحت کو چیک کرتا ہے اور تمام ممبر ممالک کے لیے ایک گائیڈ کی طرح کام کرتا ہے۔ ان کے جائزے کے بعد ہی ممالک کو وہ گائیڈ لائن جاری کرتا ہے تاکہ ان کا بجٹ خسارہ کم ہو اور معیشت کی سمت درست ہو سکے۔'
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے امداد ملنے کے بعد دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے جیسا کہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینک بھی قرضہ دیتے ہیں۔
'اگر پاکستان کو آئی ایم ایف کا پیکج نہ ملتا تو پاکستان کو ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر ورلڈ بینک اور تین ارب ڈالر کا اے ڈی بی کا قرض بھی متاثر ہوتا۔ یوں مجموعی طور پر پاکستان تقریبا تین سے پانچ ارب ڈالر کی کمی دیکھنے میں آتی۔'
مہتاب حیدر نے مزید کہا کہ اس کے باعث نا صرف ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا بلکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اگر پاکستان اپنے بانڈز بیچ کر ڈالر حاصل کرتا تو اسے زیادہ شرح سود پر رقم ملتی۔

مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ قرضہ نہ ملنے کی صورت میں پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سعودی پیکج سے معاشی بہتری کے آثار

اس سے قبل گذشتہ ماہ کے آخر میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے لیے 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کے پیکج کے اعلان کے فوری بعد معیشت پر مثبت اثرات آنا شروع ہو گئے تھے۔
 سعودی پیکج کے بعد ڈالر کے مقابلے میں نا صرف روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہوا ہے بلکہ سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
ماہرین کے مطابق سعودی پیکج سے پاکستان کی معیشت کو قلیل مدت کے لیے سہارا مل گیا ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ پیکج سے نا صرف مجموعی معیشت میں بہتری آئے گی بلکہ مہنگائی کے ستائے عوام کو بھی کسی حد تک ریلیف دیا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے سعودی امداد پر شکریے کا ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’مرکزی بنک میں تین ارب ڈالر کے ڈیپازٹ اور ریفائنڈ یپٹرولیم مصنوعات کے لیے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی فنانسنگ کےذریعے پاکستان کی مدد پر میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا مشکور ہوں۔'

شیئر: