Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 منی بجٹ پر ہنگامہ خیز اجلاس، اپوزیشن کی قیادت ایوان سے غائب

وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں کئی روز کی پس و پیش کے بعد بالآخر آئی ایم ایف کی شرط پوری کرتے ہوئے منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔
اجلاس سے قبل طرح طرح کی قیاس آرائیاں اور افواہیں گرم تھیں کہ شاید حکومت اپنے اراکین اور اتحادیوں کی مکمل حمایت حاصل کرنے میں مشکل کا شکار ہوگی۔
تاہم جمعرات کو پارلیمنٹ میں ایسا کوئی تاثر نہیں ملا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل وزیراعظم اپنی پارلیمانی پارٹی اور اتحادیوں کے اجلاس میں شریک ہوئے تو اس موقع پر صحافیوں سے مختصر گفتگو میں ان کا لہجہ پراعتماد تھا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہر تین ماہ بعد کہا جاتا ہے کہ حکومت مشکل میں ہے مگر حکومت کسی مشکل میں نہیں ہے۔ اس موقع پر انہوں نے روایتی انداز میں نواز شریف اور شہباز شریف پر تنقید بھی کی۔
دوسری طرف اجلاس کے آغاز میں ہی واضح ہوگیا تھا کہ اپوزیشن منی بجٹ کی مخالفت کے لیے عددی اکثریت پوری کرنے کی تیاری کر کے نہیں آئی۔
اپوزیشن کی مرکزی قیادت خود اجلاس سے غائب تھی، نہ تو مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف موجود تھے نا پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری۔ حتیٰ کہ اپوزیشن کے دیگر مرکزی رہنما جیسا کہ شاہد خاقان عباسی اور ایاز صادق  بھی اجلاس میں غیر حاضر پائے گئے۔
وزیراعظم گو کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں آئے مگر بجٹ پیش کرتے وقت ایوان میں نہیں آئے اور صرف چند وفاقی وزرا ہی نظر آئے۔
جب وزیر خزانہ شوکت ترین نے ضمنی بجٹ پیش کیا تو اپوزیشن نے خاص مزاحمت نہیں کی، لیکن جب حکومت نے سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل پیش کیا تو اس پر نعرے بازی شروع ہوگئی تاہم سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے سٹیٹ بینک خودمختاری کا بل پارلیمانی کمیٹی کو غور کے لیے بھیج دیا۔

وزیراعظم پارلیمنٹ ہاؤس میں آئے مگر بجٹ پیش کرتے وقت ایوان میں موجود نہ تھے (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

اس کے بعد حکومت نے متعدد آرڈیننس توسیع کے لیے ایوان میں پیش کیے جن میں سے کچھ پہلے ہی زائد المیعاد ہوچکے تھے۔ اس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے سپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کرلیا۔
اپوزیشن ارکان نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر منی بجٹ نامنظور اور حکومت کے خلاف نعرے درج تھے۔
اس موقع پر چند ارکان حکومتی بینچوں کی طرف آئے اور وزیر خزانہ کو گھیر لیا۔ جب اپوزیشن کے ارکان آگے گئے تو ہنگامہ شدید ہوگیا۔
اس ہنگامہ آرائی کے دوران پیپلز پارٹی کی رکن شگفتہ جمانی نے پی ٹی آئی کی رکن غزالہ سیفی کو تھپڑ مار دیا انہوں نے بھی جوابی ہاتھا پائی کی۔
میڈیا سے گفتگو میں غزالہ سیفی کا کہنا تھا کہ ان کی انگلی میں فریکچر ہوگیا ہے۔ اس دوران ایوان کی سکیورٹی پر مامور سارجنٹ ایٹ آرمز نے آکر ارکان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا۔
اس موقع پر پریس گیلری میں موجود ایک صحافی نے کہا کہ آج اسمبلی کی روایت ٹوٹ گئی اور پہلی بار مرد ارکان کے بجائے خواتین ارکان نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔

اپوزیشن ارکان نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر منی بجٹ نامنظور اور حکومت کے خلاف نعرے درج تھے (فوٹو: سکرین گریب)

سپیکر نے جلدی جلدی 18 رکنی ایجنڈے کے باقی نکات منظور کرانا شروع کیے تو اپوزیشن نے گنتی چیلنج کردی۔اس پر سپیکر نے گنتی کرانے کا حکم دیا اور بل کے حامی ارکان کو کھڑے ہو کر گنتی میں شامل ہونے کا کہا جس پر حکومتی ارکان کھڑے ہو گئے۔
اس کے بعد اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر واپس آگئے۔ جب سپیکر نے بل کے مخالف ارکان کو کھڑا ہونے کا کہا تو سوائے تین ارکان کے اپوزیشن کے تمام ارکان بیٹھے رہے جس پر سپیکر نے گنتی کرنے والے سٹاف کو واپس بلا لیا اور نتیجے کا اعلان کردیا۔
رائے شماری کے مطابق حکومتی بل کے حامی ارکان کی تعداد 145 تھی جبکہ بل کے مخالف ووٹوں کی تعداد تین ہی شمار کی گئی۔ پریس گیلری میں اپوزیشن کی طرف سے بل کی مخالفت میں کھڑے نہ ہونے کو عجیب حکمت عملی قرار دیا گیا اور بعد میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے اپوزیشن کو اس بات کا طعنہ بھی دیا کہ آپ کے پاس تین ہی ووٹ نکلے۔
سپیکر نے اس موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کو بولنے کا موقع دیا تو انہوں نے منی بجٹ اور حکومت پر شدید تنقید کی۔

اپوزیشن کے چند ارکان حکومتی بینچوں کی طرف آئے اور وزیر خزانہ شوکت ترین کو گھیر لیا (فوٹو: سکرین گریب)

ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی معاشی خودمختاری کا سودا کر رہی ہے اور سٹیٹ بینک کا کنٹرول آئی ایم ایف کو دیا جا رہا ہے جو کہ شرم ناک بات ہے، اس طرح قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوام پر رحم کرے اور یہ دیکھے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں تنگ آئے عوام نے حکومت کو بلدیاتی انتخابات میں کیا سبق سکھایا ہے۔
حکومت کی طرف سے اسد عمر نے خواجہ آصف کے بعد جوابی تقریر کی۔ اسد عمر عام طور پر اسمبلی میں کم بولتے ہیں مگر حال ہی میں پارٹی کی تنظیم نو کے بعد انہیں سیکریٹری جنرل بنایا گیا ہے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ وہ آج اپوزیشن پر خوب گرجے برسے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو تکلیف یہ ہے کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی۔
’وہ حکومت جس کے وزیراعظم اور وزرا باہر نوکریاں کرتے تھے وہ آج قومی سلامتی کا درس دیتے ہیں۔ اسد عمر نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشنز میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر بھی نو تحصیلوں سے نہ جیت سکیں جبکہ پی ٹی آئی نے تنہا 15 تحصیلوں میں کامیابی حاصل کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دو پارٹیوں کو ان کو کوئی حق نہیں کہ اس موضوع پر بات کریں۔
اجلاس میں بجٹ کے نکات پر بات نہیں ہوئی نہ حکومت نے وضاحت دی کہ کون سے نئے ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں، تاہم اجلاس کے بعد وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں منی بجٹ کے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔  
اجلاس کے بعد مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب سے پوچھا گیا کہ آپ کی مرکزی قیادت کیوں غائب تھی تو ان کا کہنا تھا کہ ضمنی فنانس بل صرف اسمبلی میں پیش ہونا تھا جب اس کی منظوری کے لیے ووٹنگ کا مرحلہ آئے گا تو اپوزیشن بھرپور مزاحمت کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب منی بجٹ پر بحث شروع ہو گی تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ہی اس کا آغاز کریں گے۔

شیئر: