Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فاقوں کے مارے افغان اپنے بچے بیچنے پر مجبور ’اور کوئی راستہ بھی تو نہیں‘

گلدستہ قلعہ نو میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ایک کیمپ میں رہ رہی ہیں۔ (فوٹو: اے پی)
مغربی افغانستان میں مٹی سے بنے جھونپڑی نما گھروں کے ایک وسیع و عریض کیمپ میں جہاں خشک سالی اور جنگ کے باعث بے گھر ہونے والے افراد رہتے ہیں، وہاں ایک خاتون اپنی بیٹی کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق عزیز گل کے شوہر نے ان کو بتائے بغیر اپنی 10 برس کی بیٹی کو شادی کے نام پر فروخت کر دیا۔ ان کے شوہر نے کچھ پیشگی رقم بھی لے لی تاکہ اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پال سکیں۔
افغانستان کے بہت سارے خاندانوں کو ایسے مایوس کن فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔
جب اگست کے وسط میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا تو بیرونی امداد پر انحصار کرنے والے افغانستان کی معیشت پہلے ہی سے زبوں حالی کا شکار تھی۔
بین الاقوامی برادری نے افغانستان کے اثاثے منجمد کر دیے تھے اور امداد روک دی تھی۔ گذشتہ 20 برسوں میں ظلم و بربریت کی وجہ سے بین الاقوامی برادری طالبان حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں۔
جنگ، خشک سالی اور کورونا وائرس کی وبا سے دوچار اس ملک کی معاشی صورت حال تباہ حال ہے۔ سرکاری ملازمین کو مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملیں جبکہ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ نصف سے زیادہ آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
افغانستان میں امدادی ادارے ورلڈ وژن کی سربراہ ایسنتا چارلس کا کہنا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس ملک میں صورت حال خراب ہوتی جا رہی ہے۔
’آج یہ دیکھ کر دل ٹوٹ گیا ہے کہ خاندان کو کھانا کھلانے کے لیے لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر تیار ہیں۔‘

عزیز گل نے اپنی بیٹی فروخت کرنے کے خلاف مزاحمت کی اور اس کو طلاق دلوائی (فوٹو: اے پی)

افغانستان میں کم عمر لڑکیوں کی شادی کرانا عام ہے۔ دولہے کا خاندان رقم ادا کرتا ہے اور لڑکی اس وقت تک اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہے جب تک اس کی عمر 15 سال نہیں ہو جاتی۔
عزیز گل اس پدر شاہی معاشرے میں اپنی بیٹی کی شادی کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔ ان کی شادی بھی 15 سال کی عمر میں ہو گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کی بیٹی قندی گل کو ان سے جدا کیا گیا تو وہ خودکشی کر لیں گی۔
جب ان کے شوہر نے بتایا کہ انہوں نے قندی گل کو فروخت کردیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’میرے دل کی دھڑکن بند ہوگئی۔ کاش میں اس وقت مر جاتی، لیکن شاید اللہ نہیں چاہتا کہ میں مر جاؤں۔‘
ان کے مطابق ’جب بھی مجھے وہ رات یاد آتی ہے، میں مرتی ہوں اور پھر زندہ ہو جاتی ہوں۔‘
ان کے شوہر نے بتایا تھا کہ اگر وہ قندی گل کو فروخت نہ کرتا تو سب بھوک سے مر جاتے۔
تاہم عزیز گل کا کہنا ہے کہ ’اس نے جو کیا، اس سے مرنا زیادہ بہتر تھا۔‘
عزیز گل نے اپنے بھائی اور علاقے کے بڑوں کی مدد سے قندی گل کو اس شرط پر طلاق دلوائی کہ وہ ایک ہزار امریکی ڈالرز واپس کر دیں گی جو ان کے شوہر نے وصول کیے تھے۔
ان کے شوہر اس خوف سے فرار ہوئے کہ شاید ان کی اہلیہ حکام کو اطلاع نہ کر دیں۔ طالبان حکومت نے حال ہی میں جبری شادیوں پر پابندی عائد کی ہے۔

اس کیمپ میں بے گھر افراد مقیم ہیں (فائل فوٹو: اے پی)

کیمپ کے ایک اور حصے میں چار بچوں کے والد حامد عبداللہ بھی اپنی کم عمر بیٹیوں کی شادیاں کر کے فروخت کر رہے تھے۔ ان کی اہلیہ پانچویں بار حاملہ ہیں اور وہ ان کے علاج کے لیے پریشان ہیں۔
اپنی اہلیہ کے علاج کے لیے انہوں نے جو قرض لیا تھا وہ اس کو واپس کرنے کے قابل نہیں۔ تین سال قبل انہوں نے اپنی سات سالہ بیٹی کو فروخت کر دیا تھا اور کچھ پیشگی رقم بھی حاصل کرلی تھی۔
حامد عبداللہ کو اب مزید رقم کی ضرورت ہے اور وہ اپنی چھ برس کی دوسری بیٹی نازیہ کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کی اہلیہ نے بتایا کہ ’ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں لیکن یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ جب ہم نے فیصلہ کرلیا تو یہ ایسا تھا جیسے کسی نے میرے وجود کا ایک حصہ مجھ سے الگ کر دیا ہو۔‘
صوبہ بادغیس میں ایک اور بے گھر خاندان اپنے آٹھ برس کے بیٹے صلاح الدین کو فروخت کرنے کا سوچ رہا ہے۔
صلاح الدین کی والدہ گلدستہ نے بتایا کہ کئی دن بھوکا رہنے کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کو بتایا کہ صلاح الدین کو بازار لے جائیں اور اس کو فروخت کر کے کھانے کا سامان لے آئیں۔
’میں نہیں چاہتی کہ اپنے بیٹے کو فروخت کروں لیکن مجھے ایسا کرنا پڑے گا۔‘

حامد عبداللہ اب اپنی چھ برس کی دوسری بیٹی نازیہ کو فروخت کرنے کی کوشش میں ہے (فوٹو: اے پی)

35 برس کی گلدستہ نے کہا کہ ’کوئی بھی ماں اپنے بچے کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی، لیکن جب آپ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ ہو تو آپ کو اپنی مرضی کے خلاف فیصلہ لینا پڑتا ہے۔‘
صلاح الدین کے والد ایک آنکھ سے دیکھ نہیں سکتے اور ان کو گردوں کی بیماری بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں۔ دو مرتبہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو فروخت کر دیں گے لیکن ہچکچا رہے تھے
ان کے مطاقب ’اب میں سوچتا ہوں کہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔‘
امدادی ادارے ورلڈ وژن کی سربراہ ایسنتا چارلس کا کہنا ہے کہ افغانستان کو امداد کی ضرورت ہے۔ امداد کے حوالے سے جو وعدے کیے گئے ان کو پورا کیا جانا چاہیے۔

شیئر: