Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا بدزبانی/گالی کا استعمال صرف پنجابی زبان میں ہوتا ہے؟

صحافتی تنظیموں نے بھی پرویز رشید اور مریم نواز کے الفاظ پر احتجاج کیا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز شریف اور سابق سینیٹر پرویز رشید کے درمیان ہونے والی مبینہ ٹیلی فونک گفتگو کے منظر عام پر آنے کے بعد ذرائع ابلاغ میں کافی بحث جاری ہے۔
اس ٹیلی فونک گفتگو میں مریم نواز کی جانب سے صحافیوں کو تحفے دینے کی بات پر تنقید ہو رہی ہے جبکہ اس گفتگو کی دوران پرویز رشید کی جانب سے جیو نیوز چینل کے پروگرام کے تجزیہ کاروں کے بارے میں نامناسب الفاظ کہنے پر کافی تنقید کی گئی ہے۔
منگل کو اس مبینہ آڈیو ٹیپ کے سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گل سمیت متعدد لوگوں نے اس گفتگو کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’تازہ آڈیو میں مریم نواز نے سینیئر صحافیوں کے بارے میں نازیبا کلمات استعمال کیے۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’اس پر صحافتی تنظیمیں اور پریس کلبز خاموش کیوں ہیں۔
لیکن دوسری جانب صحافتی تنظیموں نے بھی فون کال میں جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ کے پینل کے شرکا کے متعلق پرویز رشید اور مریم نواز کے الفاظ پر احتجاج کیا ہے۔

’ہماری پنجابی محاوراتی زبان ہے‘

اس آڈیو ٹیپ کے سامنے آنے کے دو دن بعد جمعرات کو مسلم لیگ نواز پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ سے ایک پریس کانفرنس کے دوران سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’اس آڈیو کو جتنا میں نے سنا ہے اس میں مریم نواز نے کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی لیکن پروز رشید صاحب نے یہ کہا ہے کہ ہمارے اوپر..... کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ ہماری پنجابی محاوراتی زبان ہے۔‘
’ہمیں لوگ آ کر کہتے ہیں کہ آپ نے فلاں پروگرام کیا اس میں فلاں آپ کے خلاف.... ہے۔ ممکن ہے پرویز رشید صاحب سے بھی کسی نے ایسے کہا ہو اور انہوں نے انہی الفاظ میں یہ کہہ دیا ہو۔ ورنہ پرویز رشید صاحب تو بہت شریف النفس آدمی ہیں۔‘

رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ  'ہماری پنجابی محاوراتی زبان ہے۔ٗ'(فائل فوٹو:ٹوئٹر)

خیال رہے کہ گذشتہ برس 16 جون کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی اور اس دوران گالیوں کا استعمال بھی ہوا۔
اس واقعے کے بعد جب مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی روحیل اصغر سے گالیوں کے استعمال سے متعلق سوال پوچھا گیا تو انہوں فوری طور پر جواب دیا کہ ’یہ پنجاب کا کلچر ہے‘ اور پھر یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔
اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے آفیشنل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی یہ ویڈیو پوسٹ کی گئی اور اس پر تنقید کی گئی۔
اس وقت مسلم لیگ نواز کے ایک رہنما عابد شیر علی نے بھی ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ’مجھے روحیل اصغر صاحب کے ان خیالات سے شدید اختلاف ہے اور میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں۔‘
اس حوالے سے اردو نیوز نے پنجابی زبان کے ادیبوں اور مصنفین سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کہ کیا گالی پنجاب کا کلچر ہے یا یہ پنجابی زبان کا لازمی جزو ہے؟

’محاورے کا استعمال دنیا کی ہر زبان میں ہوتا ہے‘

پنجابی زبان کے ممتاز فکشن نگار نین سُکھ کا کہنا تھا کہ ’دنیا کی ہر زبان میں گالی موجود ہے اور اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جو آپ کا مخالف ہے، آپ اس کے لیے ایسی آواز کا ذکر کرتے ہیں جو آپ کو ناپسند ہو۔‘
’گالی کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ پنجابی کا کلچر ہے، درست نہیں، محاورے کا استعمال دنیا کی ہر زبان میں ہوتا ہے۔‘
نین سکھ نے میاں محمد بخش کا ایک شعر بھی سنایا:
خاصاں دی گل عاماں اگے نئیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمدا کتیاں اگے دھرنی
(دانشمند لوگوں کے سمجھنے کی لیے کی جانے والی بات بے وقوفوں کے سامنے نہیں کیا کرتے۔ (یہ ایسے ہی ہے جیسے) میٹھی کھیر پکا کر کتوں کے سامنے رکھ دی جائے۔)

گذشتہ برس روحیل اصغر سے گالیوں کے استعمال سے متعلق کہا تھا کہ ’یہ پنجاب کا کلچر ہے۔‘ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

’گالی کسی ایک زبان کے ساتھ خاص نہیں‘

پنجابی زبان کے ممتاز لکھاری اور دانشور مشتاق صوفی کہتے ہیں کہ ’دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں کہ جس میں گالیاں موجود نہ ہوں۔‘
مشتاق صوفی کے بقول ’گالی پوری دنیا کے سماج کے کلچر کا حصہ ہے۔ یہ خاص قسم کے غصے کے نکاس کا طریقہ ہے جسے دوسرے شخص کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنائے بغیر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی اس سے آدمی کا کتھارسس ہوجاتا ہے۔‘
’اپنی زبان میں گالی کا فوری اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ اس شخص کے لاشعور اور وجود کا حصہ ہوتی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پنجابی اپنی زبان سے پیار نہیں کرتے، وہ اس زبان کا خاص طور پر غصے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے اس کے بارے میں منفی تأثر بنا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے 2002 میں سچل سٹوڈیو میں ایک رسالہ دیکھا، جس میں خبر تھی کہ فرانس کے کسی شہر میں شیکسپیئر کا ڈراما اس لیے بین کر دیا گیا کہ وہ بڑا فحش اور گالیوں سے بھرا ہوا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ گالی زبان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ سماج کا حصہ ہے اور مختلف طبقے اس کا مختلف انداز میں استعمال کرتے ہیں۔
’پنجابیوں نے چونکہ اپنی زبان چھوڑ رکھی ہے، اس لیے اس حوالے سے طبقاتی تعصب بھی پایا جاتا ہے۔‘

’یہ زبان کا سوال ہی نہیں ہے‘

پنجابی زبان و ثقافت کے فروغ کے لیے کوشاں سیاسی و سماجی کارکن اور پبلشر امجد سلیم منہاس کا موقف بھی کم و بیش ایسا ہی ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں ’سیاست، صحافت اور سماجیات میں مہذب زبان استعمال کرنی چاہیے۔‘
ان کیا کہنا تھا کہ ’دنیا کی ہر زبان کے انتہائی مقامی لہجے میں گالیوں کا استعمال ہوتا ہے بلکہ انگلش لٹریچر، فلم اور میوزک میں آپ کو ایسے الفاظ بکثرت ملتے ہیں۔‘
سیاست میں استعمال ہونے والی زبان پر بات کرتے ہوئے انہوں اپنے والد کا حوالہ دیا اور کہا کہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔

 مشتاق صوفی کہتے ہیں کہ 'دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں کہ جس میں گالیاں موجود نہ ہوں۔' (فوٹو: توئٹر)

’انہوں نے بتایا کہ ایک بار مولانا مودودی نے مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں لفظ ’مرحوم‘ لکھا جو ان کے نزدیک غیر مہذب لفظ تھا۔ پھر مسلم لیگیوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں کیا کیا الفاظ استعمال نہیں کیے لیکن مولانا ابوالکلام آزاد اظہار کی اس سطح پر نہیں اترے۔‘
امجد سلیم منہاس سمجھتے ہیں کہ ’ہمیں اجتماعی اظہار کے معاملے میں اچھی مثالوں کی پیروی کرنی چاہیے اور سیاسی لوگوں کے لیے میں کسی بھی طور اس طرزِگفتار کو مناسب نہیں سمجھتا۔‘
'پروپیگنڈا کیا گیا کہ پنجابی گنواروں کی زبان ہے‘
دراصل انگریزوں نے جب پنجاب پر قبضہ کیا تو انہوں نے مختلف طریقوں سے ہماری زبان کو Snub کیا۔ یہاں جو یوپی وغیرہ کی اشرافیہ آئی، ان کے ذریعے اردو مشاعرے کروائے گئے جن کے موضوعات بھی مقامی نہیں تھے، اس وقت یہاں پروپیگنڈا کیا گیا کہ پنجابی گنواروں کی زبان ہے اور محدود وقت کے لیے اردو سٹیٹس سمبل بن گیا لیکن اب وہ بھی نہیں رہا۔‘
کچھ سیاسی مبصرین اس انداز میں لکھتے ہوئے پائے گئے کہ ’فلاں عمل کے لیے پنجابی کا ایک محاورہ ہے لیکن میں اسے یہاں لکھ نہیں سکتا وغیرہ۔‘ پنجابی زبان کا اس انداز میں حوالہ دینا کیسا ہے؟ اس پر امجد سلیم منہاس نے کہا کہ ’اس طرح کی بات کے پیچھے ایک خاص نفسیات ہے جسے مادری زبان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘

شیئر: