Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وید مہتا جب اپنا بچپن سمیٹنے کے لیے لاہور آئے

مہتا اس گھر میں گئے تو یادوں کی جھڑی لگ گئی۔ (فوٹو: قاسم جعفری)
معروف براڈ کاسٹر، صحافی اورعمدہ آپ بیتی ’جیون ایک کہانی‘ کے مصنف ،علی احمد خان سے، گذشتہ ماہ ایبٹ آباد میں ملاقات ہوئی تو اس میں لاہور شہر کا ذکر چل نکلا۔ انھوں نے ہمیں معروف مزاح نگار کنھیالال کپور کا یہ قول سنایا:
’جب تک ہندوستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا میرے لیے ہندوستان کے تمام شہر اور قصبے برابر ہیں۔‘
اس پر مجھے غالب کا یہ شعر یاد آیا:
جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو
علی احمد خان نے اس موقعے پر بی بی سی میں اپنے رفیقِ کار شوتو پاوا کی لاہور سے محبت کی حکایت بھی سنائی جنھیں اس شہر سے اس درجہ محبت تھی کہ1947میں انگلینڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد، ہندوستان واپسی کے سفر میں انھیں جب یہ خبر ملی کہ لاہور بھارت  کا حصہ نہیں بن رہا تو پھر اپنے جی میں یہ بات ٹھہرا کر کہ جب لاہور میں رہنا ہی نصیبے میں نہیں تو پھر مستقل قیام کے لیے، لندن ہی بھلا۔ سو،لندن پلٹ گئے اور تمام زندگی اسی آباد خرابے میں بسر کی۔
 شوتو پاوا سے میرے پہلے تعارف کا ذریعہ فیس بک پر سینیئر صحافی اور براڈ کاسٹر شاہد ملک کا ایک مختصر نوٹ بنا تھا جس کو پڑھتے ساتھ ہی میں نے محفوظ کرلیا تھا کہ بوقت ضرورت کام آوے۔
شاہد ملک نے لکھا:
’پاوا صاحب نے، جن کے والد ڈاکٹر متھرا داس کا بھرپور تذکرہ دیوان سنگھ مفتون کی ’ناقابل فراموش‘ میں موجود ہے، 1947ء میں لندن سے بیرسٹری کی تعلیم مکمل کی۔
 وطن واپسی کے بحری سفر میں ابھی پورٹ سعید پہنچے تھے کہ پاکستان بن جانے کی اطلاع ملی، اور یہ بھی کہ لاہور ہندوستان میں نہیں، پاکستان میں شامل ہوگا۔
بتایا کرتے تھے کہ میرا دل ٹوٹ گیا۔ سوچا جب لاہور میں رہنا نصیب نہیں تو کیوں نہ دلی کی بجائے دوبارہ لندن چلا جاؤں۔ چنانچہ پورٹ سعید سے واپسی کا ٹکٹ لے لیا اور  1991 تک زندگی کے باقی 44 سال لندن ہی میں گزار دیے۔‘
لاہور میں ان کی رہائش ٹمپل روڈ پر واقع اس ملکیتی احاطہ میں تھی جہاں پاکستان بننے کے بعد مرحوم عزیز صدیقی اور آئی اے رحمان صاحب ایک مدت تک قیام پذیر رہے۔
لندن میں بی بی سی ہندی کے جن بزرگوں کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا، ان میں شوتو پاوا سر فہرست ہیں۔ اکثر کہا کرتے: ’میرے تے سارے ای دوست نیں۔ کوئی دشمن وی ہووے گا، پر مینوں پتا نئیں۔‘
بے حد خوشگوار طبیعت کے پیش نظر، میں غیرموجودگی میں انہیں دوسروں کے سامنے ’ہیومن فروٹ کیک‘ کہہ کر یاد کیا کرتا تھا۔ اب دل ہی دل میں کر لیتا ہوں۔‘
 شاہد ملک کا بیان پڑھ کر ہم نے دیوان سنگھ مفتون کی کتاب دیکھی تو معلوم ہوا کہ  شوتو پاوا کے والد ڈاکٹر متھرا داس نیک نفس،انسان دوست،بالیاقت اور ہردل عزیز تھے۔
 صاحبِ طرز نثر نگار شیخ منظور الٰہی نے بھی اپنی کتابوں میں متھرا داس کا ذکر بڑی اپنائیت سے کیا ہے۔
وہ اپنی کتاب ’ہم کہاں کے دانا تھے‘، میں لکھتے ہیں:
’ڈاکٹر متھرا داس کے ہاتھ میں مسیحائی تھی۔انھوں نے ہزاروں آپریشن کیے اور ملک بھر میں مشہور ہوئے۔ کھدر کا لباس، سر پہ کرسٹی کیپ،جب ہمارے ہاں آتے تو ان کے لیے ویشنو کھانا تیار رکھا جاتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی دو عالیشان کوٹھیاں تھیں۔ لاہور میں ٹمپل روڈ پر رہائشی فلیٹ تھے۔ آزادی کے بعد ابا کو خبر ملی کہ گزر بسر کے لیے ڈاکٹر صاحب کو کناٹ سرکس دہلی میں دو دو کمرے الاٹ ہوئے ہیں جہاں وہ بیس بائیس اہل خانہ کے ساتھ مقیم ہیں۔ اپنے دوست کی بے سروسامانی کا ذکر کرکے ابا آنسو ضبط نہ کرسکےاور اٹھ کر چلے گئے۔ایک عرصے تک ڈاکٹر صاحب کا پوسٹ کارڈ آتا رہا۔: ’میرے پیارے شیخ جی۔مقبول، منظور کو پیار۔‘
منظور الٰہی شیخ نے ’سلسلہ روز وشب‘ میں بھی ڈاکٹرمتھرا داس کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے خیال میں صلحِ کُل پر یقین رکھتے تھے اور جن کی شخصیت ان خوبیوں سے متصف تھی: ملنسار، متواضع ، ہر تفریق سے بالا اور غریب پرور۔۔۔ مرنجاں مرنج، خدمت خلق میں مستعد۔
شوتو پاوا اور ان کے والد کا ذکر دراصل وہ تمہید ہے جو ہم  نے ٹیمپل روڈ کے ایک باسی وید مہتا کی کہانی سنانے کے لیے اٹھائی ہے جنھوں نے 1934 میں لاہور میں آنکھ کھولی۔ تین برس کی عمر میں بینائی سے محروم ہوگئےلیکن حالات کے سامنے سپر ڈالنے کے بجائے آگے بڑھنے کا رستہ ڈھونڈتے رہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ کئی کتابوں کے مصنف بنے۔ 35 سال نیو یارکر کے سٹاف رائٹر رہے۔
وید مہتا کو تقسیم کے 32 سال بعدلاہور میں 11ٹیمپل روڈ پر اپنے گھر کو وزٹ کرنے کا موقع ملا جس کا احوال انھوں نے A House Divided کے عنوان سے اپنی تحریر میں کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دورۂ لاہور کی راہ، اس وقت ہموار ہوئی جب 1978میں معروف پاکستانی رائٹر فقیر سیداعجاز الدین اور ان کی اہلیہ شہناز اعجاز الدین سے ان کی دلی میں ملاقات ہوئی جو ایک گہری دوستی کی بنیاد بن گئی۔ انھوں نے اپنے مضمون میں  دونوں میاں بیوی کا ذکر بڑی محبت سے کیا ہے جو ان کو اپنے پنجابی رشتہ داروں کی طرح پرتپاک اور ملنسار لگے ۔ وید انھیں اپنے خاندان کا حصہ جانتے تھے۔

 وید مہتا کے لیے یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ گھر پر ان کے والد ڈاکٹر امولک رام مہتا  کا نام پتھر کی سل پر ابھی بھی کندہ تھا۔ (فوٹو: قاسمم جعفری)

فقیر سید اعجاز الدین کی دعوت کو 1979میں وید نے اس وقت پذیرائی بخشی جب انھوں نے بچپن کی یادداشتیں لکھنا شروع کیں۔ لاہور میں اس مہربان جوڑے کی معیت میں اپنے آبائی گھر 11 ٹیمپل روڈ گئے جہاں اب معروف سیاست دان اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کی دو بہنیں قیام پذیر تھیں۔ مہتا اس گھر میں گئے تو یادوں کی جھڑی لگ گئی۔ سارا نقشہ ذہن میں نقش تھا۔ گھر کا کونا کونا چھان مارا۔ ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے مکین ان کی آمد سے  خوش نہ ہوئے اور انھیں طوعاً کرہاً ہی اُس گھر میں داخلے کی اجازت دی گئی جو ان کے والد نے بڑے چاؤ سے 1928 میں تعمیر کروایا تھا۔ محترم خواتین کو ناحق یہ خطرہ لاحق ہوا کہ جیسے وہ برسوں بعد اپنے مکان پر حق ملکیت جتانے چلے آئے ہوں جبکہ یہ بات وید کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھی۔اور ایسا ممکن بھی نہ تھا۔ لیکن وہم کو کوئی علاج نہیں۔ فقیر سید اعجاز الدین کے بقول:
 ’وید اپنی جائیداد نہیں اپنا بچپن سمیٹنے کے لیے آیا تھا‘
وید مہتا کے لیے یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ گھر پر ان کے والد ڈاکٹر امولک رام مہتا  کا نام پتھر کی سل پر ابھی بھی کندہ تھا۔ مہتا کے مطابق،ٹیمپل روڈ اس زمانے میں لاہور کا مرکزی اور پرکشش علاقہ تھا۔ انھوں نے لکھا کہ انگریز حکمران لاہور کو پنجاب کا پیرس کہتے تھے۔ وہ اپنی بہنوں اور کزنوں کے ساتھ مال روڈ پر جانے کا ذکر کرتے ہیں۔ لارنس گارڈن کی بات کرتے ہیں۔لاہور میوزیم کے سامنے تاریخی زم زمہ توپ دیکھنے جانے  کا تذکرہ چھیڑتے ہیں تو ان کو اپنے لاہوری دوست اور ممتاز مصور کرشن کھنہ ( لاہور میں میکلگن روڈ پر ان کی رہائش گاہ تھی جہاں ان کے بقول وہ مسلمان ، سکھ ، مسیحی اور پارسی ہمسائیوں کے ساتھ تعصب سے پاک ماحول میں رہتے تھے۔) کی یاد آتی ہے جو ان کے بقول اسی زمزمہ توپ کے سائے میں پروان چڑھے۔
1988میں کرشن کھنہ لاہور آئے تو یہ تاریخی توپ دیکھنے بھی گئے ،اور بعد میں اس کی جو تصاویر بنائیں ان میں سے ایک  وید مہتا کے حصے میں بھی آئی جو نیو یارک میں بچپن کی یادگار کے طور پر موجود رہی۔ ٹیمپل روڈ کے گھر کی ایک  نشانی وہ لیمپ بھی تھا جو امریکہ میں ان کے اپارٹمنٹ میں موجود تھا ،یہ وید کے والد نے ان کے سب سے بڑے کزن کو شادی پر تحفتہً دیا تھا جس نے مدتوں بعد انھیں اس کا کسٹوڈین مقرر کیا۔
 وید مہتا گرمیوں میں چھت پرکھلے آسمان تلے سونے ،چھت پر کھیلنے اور پتنگ بازی کی بات کرتے ہیں۔ ان کی تحریر میں مسلمان پڑوسی شیخ صاحب کا ذکر خیر بھی ہے جو ان کےدیرینہ فیملی فرینڈ تھے۔ تقسیم سے چند ماہ قبل ان کے ٹیوب ویل سے پانی وید کے گھر لانے تک ایک پائپ بچھایا گیا کہ اگر فسادات میں مکان کو آگ لگائی جائے تو اسے ٹھنڈا کیا جاسکے۔ مہتا نے لکھا ہے کہ سیاسی فضا اس قدر مسموم ہوچکی تھی کہ ہمیں یہ فکر لاحق ہوگئی تھی کہ شاید پینے کے پانی کی سپلائی بھی متاثر ہوجائے۔

 ٹیمپل روڈ کا یہ مکان ،وید کے لیے کئی اعتبار سے اہم ہے۔ (فوٹو: قاسم جعفری)

اب جو وہ اپنے گھر آئے تو انگوروں سے لدی بیلوں  اور گلاب کے کھلتے پھولوں سے ان کی طبعیت بہت سرشار ہوئی، یہ چھوٹا سا چمن ان کی والدہ نے آراستہ کیا تھا جو برسوں گزرنے پر بھی پھل پھول رہا تھا۔
 ٹیمپل روڈ کا یہ مکان ،وید کے لیے کئی اعتبار سے اہم ہے۔ یہ ان کے  والد کی ترقی پسندانہ سوچ کا عکاس  تھا جو پہلے ڈاکٹر بنے اور محکمہ صحت میں اونچا عہدہ حاصل کیا اور اب ایک بڑی جست یہ لگائی کہ آبائی گاؤں کے بجائے لاہور شہر میں مکان بنایا اور خاندان میں پہلے پکے مکان کی ریت ڈال کر اہل خانہ کو پرآسائش زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ان کے دیکھا دیکھی دوسرے رشتہ داروں کو بھی شہر میں گھر بنانے کی شہہ ملی اور وہ بھی ٹیمپل روڈ پر اٹھ آئے اور گاؤں کی طرح مہتا خاندان نے لاہور میں بھی اپنا چھوٹا سا قریہ آباد کرلیا۔
وید مہتا نے اپنی والدہ کے بارے میں کتاب Mamaji میں بتایا ہے کہ ٹیمپل روڈ پر مکان بنانے کے لیے ان کی ماماجی نے جہیز کا زیور اور چاندی کا ٹی سیٹ بیچا۔ والد نے منٹگمری کا مکان فروخت کیا۔ پھر بھی پوری نہ پڑی تو سود پر رقم ادھار لی۔ادھر وید کے ننھیال نے شاہ عالمی دروازے کے قرب و جوار  میں واقع  وہ گھر جہاں سے ان کی والدہ کی رخصتی ہوئی،اسے چھوڑ کر مزنگ روڈ پر عالی شان بنگلہ خرید لیا جو  ٹیمپل روڈ سے قریب ہی تھا۔
 یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ وید مہتا کا11ٹیمپل روڈ والا گھر اب تک صحیح سلامت ہے  اور اپنے ہم عصر بیش تر مکانوں کی طرح زمیں بوس نہیں ہوا۔ ان کے والد کا نام گھر کے باہر آج بھی پہلے کی طرح ثبت ہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے یہاں آرٹ کی نمائش بھی ہوئی جس کی وجہ سے یہاں چہل پہل رہی۔ اس نوع کی سرگرمیاں مسلسل ہوتی رہیں تو اس سے اچھا مصرف اس جگہ کا اور کیا ہوسکتا ہے۔ یہ مکان ابھی بھی ڈاکٹر مبشر حسن کے خاندان کی ملکیت ہے۔
وید مہتا کے لاہور سے تعلق کی ایک کڑی شیرانوالہ گیٹ بھی ہے جہاں وہ نابینا افراد کے لیے قائم ایمرسن سکول کے طالب علم رہے۔ بےمروت اساتذہ کی وجہ سے ان کی اس ادارے سے تلخ یادیں ہی وابستہ ہیں۔ فقیر سید اعجاز الدین کے ہم راہ وہ اس سکول بھی گئے جہاں ان کی اپنے اس استاد سےملاقات بھی ہوئی جس نے انھیں زمانۂ طالب علمی میں دق کیا تھا۔
وید مہتا کے دورۂ لاہور کے بارے میں فقیر سید اعجاز الدین نے اپنے تاثرات The Fickle 70S: Memoirs 1972-79 میں بیان کیے ہیں۔ شہناز اعجاز الدین کی کتاب Lost from view میں شامل ایک کالم Many ways of looking at lahore میں بھی وید کے دورے کا تذکرہ موجود ہے۔ وید کےمیزبانوں نے ان کے راولپنڈی والے گھر کا وزٹ بھی ممکن بنایا۔

وید مہتا کے دورۂ لاہور کے بارے میں فقیر سید اعجاز الدین نے اپنے تاثرات The Fickle 70S: Memoirs 1972-79 میں بیان کیے ہیں۔

  9جنوری 2021 کو وید مہتا کے انتقال پر ،فقیر سید اعجاز الدین  نے اپنے کالم A forgotten  son( ڈان ،14 جنوری 2021 ) کا آغاز شیرانوالہ گیٹ کے ذکر سے کیا۔ ان کے بقول ’لاہوریوں کے لیے تو  شیرانوالہ گیٹ قدیم اندرون شہر جانے والے بارہ دروازوں
میں سے ایک دروازہ ہے لیکن اہل نیویارک کے لیے یہ وہ راہ گزر ہےجو انھیں خداداد صلاحیت کے حامل مصنف وید مہتا کی دنیا میں  لے جاتی ہے۔‘
فقیر سید اعجاز الدین نے کالم کے آخر میں لکھا کہ’ وید کی موت سے نیو یارک اپنے ایک معروف متبنی بیٹے سے محروم ہوا اور لاہور اپنے فراموش کردہ بیٹے سے ، لاہور نے اپنے اس فرزند کو دو دفعہ گنوایا، ایک دفعہ اگست 47 میں اور دوسری دفعہ جنوری 2021 میں۔‘
اس تحریر کا آغاز،  لاہور سے محبت کے حوالے سے کنھیا لال کپور کے ایک قول سے ہوا تھا، اس کا اختتام  بھی انھی کی ایک بات پر کرتے ہیں:
لاہور کا تصور کرتے ہی دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور بے اختیار زبان پر ناسخ کا شعر آجاتا ہے:
وہ نہیں بھولتا ، جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں، کہاں جاؤں؟

شیئر: