Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ممتاز مفتی میں شدت تھی،قدرت اللہ شہاب دھیمے مزاج کے آدمی تھے،شاہداحمد

پردیس میں بچوں کی تربیت کیلئے مطالعہ بہت اہم ہے ،یہاں دادادادی مامامامی نہیں ہوتے ،مطالعہ ہی تربیت کرتا ہے،طلعت جہاں

انٹرویو :مصطفی حبیب صدیقی

محترم قارئین!اس مرتبہ ہم نے پردیس میں رہتے ہوئے مطالعے کی اہمیت مزید کتنی بڑھ جاتی ہے ا س پر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ہماری ملاقات جدہ میں آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ شاہد احمد سے ہوئی۔شاہد احمد کو مطالعے کا بہت شوق ہے ،شہاب نامہ،ممتاز مفتی ،ڈاکٹر حمید اللہ کی نثری تحریر کے علاوہ آپ نے غالب کو بھی اچھا خاصہ پڑھا ہے۔شاہد احمد سے گفتگو کا آغازکر نے سے پہلے ہم نے ان کی شریک زندگی طلعت جہاں سے پوچھاکہ آپ کو بھی مطالعے کا شوق ہے اور مطالعے کا بچوں کی تربیت پر کیا اثر پڑتا ہے تو انہوںنے کہا کہ

*طلعت جہاں:جی مجھے بھی مطالعے کا شوق ہے تاہم زیادہ نہیں ،میں نے بھی شہاب نامہ کچھ نا کچھ پڑھی ہے جبکہ اشفاق احمد صاحب کی زاویہ کا بھی مطالعہ کرچکی ہوں۔بچوں کی تربیت کیلئے مطالعہ بہت اہم ہوتا ہے خاص طور پر جب آپ پردیس میں رہتے ہیں جہاں دیگر رشتے نہیں ہوتے تو مطالعہ ماں کو بچوں کی تربیت میں بڑا معاون ثابت ہوتاہے۔ دیکھیں مشترکہ خاندانی نظام میں بچوں کی تربیت زیادہ اچھی ہوجاتی ہے کیونکہ جو باتیں ہم نہیں جانتے وہ دادا دادی اور ماموں مامی چاچاچاچی سکھادیتے ہیں مگر پردیس میں یہ رشتے نہیں ہوتے تو مطالعے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

*اردونیوز: اچھا شاہد صاحب بچوں کی تربیت کیلئے مطالعہ کی کیا اہمیت ہے؟

*شاہد احمد:آج کل کتابیں پڑھنے کا رحجا ن کم ہے ۔میں اپنے بچوں کو بستر پر کوئی نا کوئی کتاب پڑھ کر سناتا ہوں ،کیونکہ اچھی کتابیں انسان کی شخصیت بناتی ہیں،بہت سی چیزیں جو نصابی کتابوں میںنہیں ہوتیں اس لئے اب بہت اہم ہے کہ بچوںکو کتابوں سے قریب کیا جائے۔ویسے بھی پڑھنے کا رحجان کم ہوتا جارہا ہے اس لئے اب بہت ضروری ہے کہ بچوں کو مطالعے کی جانب راغب کیاجائے۔

*اردونیوز:شاہدصاحب آپ نے شہاب نامہ پڑھا،ممتاز مفتی کا بھی مطالعہ کیا ،ڈاکٹر حمید اللہ آپ کے پسندیدہ رائٹرز ہیں ۔کچھ ہمیں بتائیں گے کہ ان کتابوں کا آپ کی زندگی اور شخصیت پر کیا اثر پڑا؟

*شاہد احمد: میری زندگی پرشہاب نامہ نے بڑا اثر ڈالا اور شہاب نامہ کا بھی آخر مضمون ،’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ ،یہ میں نے 10سے زیادہ مرتبہ پڑھا ہے۔اس میں انہوں نے زندگی گزارنے اور اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کا طریقہ بتایا ہے ۔یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں بلکہ انہوں نے بتایا کہ کیسے اپنی نمازیں ٹھیک کریں،اپنے معاملات بہترکریں او ر توبہ اور توکل کریں تو زندگی بہتر ہوسکتی ہے۔

*اردونیوز:قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی کی کتابوں میں ایک دوسرے کا ذکر ملتا ہے تاہم دونوں الک اذہان کے افراد تھے پھر بھی ایک دوسرے کے قریب تھے آپ نے دونوں کو پڑھا ہے ،کیا دیکھا دونوںمیں آپ نے؟

*شاہد احمدـ: کردار اور شخصیت کے حساب سے دیکھا جائے ممتاز مفتی میں بہت شدت اور مزاج میں سختی پائی جاتی ہے ۔وہ بہت تیزی سے غصہ ہوتے اور بہت تیزی سے ٹھنڈے بھی ہوجاتے تھے مگر قدرت اللہ دھیمے مزاج کے آدمی تھے۔ان کو کچھ بھی کرلیں وہ اپنے فریم سے ہٹنے والے نہیں تھے۔ان کے اندر ٹھیرائو اوربرداشت کی انتہا تھی۔ان کی بڑائی یہ ہے کہ وہ عام سے آدمی کی زندگی گزارتے تھے جبکہ وہ بیورکریٹ ر ہے اور بڑی چیز تھے مگر کبھی انہوں نے خود کو بڑا نہیں کہا۔میں نے جو کچھ ان سے سیکھا ہے اس میں ان کا قرآن سے لگائو ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بچپن میں ہی ان کو پرائمری اسکول کے ایک استاد ملے جنہوںنے ان کو سکھا یا کہ قرآن کو کس طرح سے سمجھ کر پڑھا جائے۔پھر انہوں نے خود کو قرآن سے قریب کیا پھر نماز کی پابندی کی۔ایک جگہ قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ عموماً لوگوں کی شکایت ہوتی کہ نماز پر توجہ نہیں رہ پاتی ،تو میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا مگر میں سوچتا یہ نماز وہ ہے جو پہلے کبھی انبیا اکرام اور صحابہ پڑھا کرتے تھے کم ازکم ان کی نقل تو کررہا ہوں ،تو نقل میں بھی بیڑا پار ہوسکتا ہے ،انکی عام فہم باتوں سے بہت کچھ سیکھا جاتا ہے۔

*اردونیوز:آپ کتابوں کا شوق رکھتے ہیں غالب بھی آپ کو پسند ہے مگر آپ کا پروفیشن تو آئی ٹی ہے ،یہ دو متضاد راستے تھے تو کیا مشکل نہیں ہوئی آپ کو؟

*شاہد احمد:نہیں مشکل نہیں ہوئی۔اصل میں میرا تعلق سوفٹ ویئر سے ہے او ر سوفٹ ویئر منطق Logicsپر بات کرتی ہے اور اگر آپ غالب کی شاعری پر آئیں گے تو غالب کی شاعری کی بنیادبھی منطق پر ہے ۔اگر غالب کے ایک شعر کو سمجھ لیں توآپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے آپ نے کوئی معرکہ سر کرلیا ۔جیسے کوئی حساب کا سوال حل کرلیا۔غالب کا ایک شعر ہے جس میں وہ انسان کی حقیقت بیان کرتا ہے،کہتا ہے کہ ’’ اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بود ہے ،جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ وتاب‘‘ اب یہ نفسیاتی معاملہ ہے کہ ایک آدمی پریشان ہورہا ہے تو اتنا ہی پریشان ہوگا جتنا اسے اپنی حقیقت سے دوری ہوگی۔تو غالب اس کی مقدار کو بھی ناپ کر بیان کررہا ہے ۔یہ اس کی بڑائی ہے کہ اس کی شاعری پرانی نہیں ہوسکتی۔

*اردونیوز:ڈاکٹر حمیداللہ بھی آپ کے پسندیدہ رائٹر ہے آپ قارئین کو کسی کتاب کا مشورہ دیں گے کہ ان کی اپنی زندگی میں جو اضطراب اور پریشانی ہے تو یہ کتاب پڑھیں تو بہتر ہوگا ؟

*شاہد احمد:ڈاکٹر حمید اللہ ایک محقق تھے ۔وہ 50سال فرانس میں رہے اور نہایت متقی زندگی گزاری ۔انہوں نے کبھی اپنی کتاب پر رائلٹی نہیں لی۔کوئی بھی ان کی کتاب چھاپ سکتا ہے۔ان کے انتقال پر پتہ چلا کہ وہ کتنی بڑی شخصیت ہیں کیونکہ میڈیا نے کبھی ہمیں نہیں بتایا۔1999ء میں ان کے انتقال کے بعد اخبار میں ان کے مضامین چھپے تو میں نے انہیں پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ وہ 6،6گھنٹے مستقل مطالعہ کرنے والے تھے۔ایک جگہ لکھا ہے کہ 10ہزار سے زائد فرانسیسیوں نے ان کے ہاتھ میں اسلام قبول کیا۔ میں قارئین کو مشورہ دوںگا کہ ڈاکٹر حمید اللہ کو پڑھیں۔

*اردونیوز:ـکیا ہمارا میڈیا ہمارے اردو کے بڑے لوگوں کے بارے میں آگاہی نہیں دے رہا؟

*شاہد احمد:بالکل ،میڈیا تو گھروں میں گھسا ہوا ہے مگر میڈیا ہمیں نہیں بتاتا ،میڈیا ہمیں ایجوکیٹ کرسکتا ہے مگر وہ کہیں اور مصروف ہے۔ڈاکٹر حمید اللہ تو کوئی بات نہیں ہم تو اپنے نبی کو نہیں پہچانتے ۔ہماری نبی نے جو کارہائے نما انجام دئے وہ جنہیں اللہ نے رحمت اللہ العالمین اللہ قرار دیاہم لوگوں تک صحیح طرح آپ کی شخصیت بھی نہیں پہنچاسکے۔ڈاکٹر حمید اللہ نے یورپ میں رہ کر یورپیوں تک یہ بات پہنچائی کہ ملکی آئین کا پہلا تحریر کردہ آئین دنیا میں نبی اکرم نے دیا ہے ۔سب سے پہلے نبی اکرم نے میثاق مدینہ میں لکھوایا اور ڈاکٹر حمیداللہ نے اپنی کتاب ’’رسول اللہ کی فرماںروائی اور جانشینی ‘‘ میں اس میثاق مدینہ کو52شقوں میں بتایا ہے۔

*اردونیوز:ـشاہد صاحب مسلمان کو قرآن شریف کے مطالعے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟

* شاہد احمد:میں نے محسوس کیا ہے کہ جب قرآن شریف سے رشتہ اور تعلق بن جاتا ہے اور روزانہ قرآن کی تلاوت اور تفسیر کا مطالعہ لازم کرلیتے ہیں ،بھلے 10منٹ ہی دیں تو آپ یقین کریں کہ روزمرہ زندگی کے مسائل حل ہونے لگتے ہیں۔دیکھیں قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ قرآن پوری انسانیت کیلئے ہدایت ہے ۔یعنی اس سے کل انسانیت فائدہ اٹھاسکتی ہے تاہم میں یہاں کہوں گا کہ قرآن کا مطالعہ معہ تفسیر لازمی کرلیں تو دیکھیں روزمرہ کے معاملات کیسے حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔

**محترم قارئین !**

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز اور کہانیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ۔آئیے اپنی ویب سائٹ www.urdunews.com سے منسلک ہوجائیں۔۔ہمیں اپنے پیغامات کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔ہم سے فون نمبر 0966122836200 ext: 3428۔آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔

*ای میل:[email protected] *

شیئر: