Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اجنبی دیس میں اپنے آپ کو کتناپرایا لگتا ہوں

تم تو بیحد رئیس ہو، ایک نیم کا پیڑ اور ایک چھپر تو تمہارا اپنا ہے نہ اور پھر زندگی سوکھے پتے کی طرح مجھے یہاں وہاں اڑا لے گئی
* * * انجم قدوائی۔ علی گڑھ، انڈیا * * *
تم سے بہت دور امریکہ کے اس انجان سے شہر میں اپنے گاؤ ں کی یادوں سے زخمی میرا وجود اچانک جیسے بہت بوڑھا ہوگیا ہے۔جب میں اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوں اور انگلیاں ایک تہہ کئے ہوئے کاغذ سے ٹکراتی ہیں تو میں سہم کر اپنا ہاتھ باہر نکال لیتا ہوں۔۔۔۔اس بے رنگ کا غذ کے ٹکڑے میں یادوں کے ناگ چھپے بیٹھے ہیں جو لمحہ لمحہ مجھے ڈستے رہتے ہیں۔ پچھلی بار جب کافی مشکل سے چند دن کی چھٹیاں ملیں اور میں وطن آیا تو تم سے ملنے اوراپنے گاؤں کو ایک نظر دیکھنے کو دل مچل گیا اورمیں گاؤں روانہ ہوگیا۔راستے میں ہرے بھرے باغ اور لہلہاتے کھیتوں کو دیکھ کر میری آنکھوں کی روشنی بڑھ گئی تھی۔اسٹیشن پر میری نظریں تمہیں ڈھونڈ رہی تھیں اور پھر تم مجھے نظر آئے۔
تمہا را نرم سا چہرہ ، تانبے کی رنگت ہوگیا تھا، تمہاری کالی سیاہ جگمگا تی آنکھیں حلقوں میں آکر بجھ سی گئی تھیں۔گھنے سیاہ بال کہیں کہیں سے سفید ہو کر مجھے وقت گزر جانے کا پتہ دے رہے تھے۔مگر پھر بھی تم ویسے ہی لمبے مضبوط اور خوش لباس تھے۔ہاتھوں میں وہی چکنی سی لاٹھی جو تمہاری شخصیت کا خاصہ ہے چمک رہی تھی۔ تم مجھے دیکھے جارہے تھے آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔۔تمہارے وجود میں خوشی کی گنگنا ہٹ تھی۔مجھ سے اس طرح لپٹ گئے جیسے اب کبھی جدا نہ ہوگے۔
میں کبھی روتا نہیں ہوں مگر اسْ دن تمہاری محبت مجھے رلاْ رہی تھی۔۔۔نہ جانے کتنی دیر ہم ایک دوسرے سے لپٹے یوں ہی روتے رہے۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی اب بھی مجھ سے اتنی محبت کر سکتا ہے۔ وہی بڑا سا چھپّر والا برآمدہ ،وہی کھْلا کھْلا کچّا آنگن، وہی بان کی چوڑے چوڑے پلنگ جن پر چھینٹ کی نئی چادریں میرے اعزاز میں بچھائی گئی تھیں۔آنگن میں بنی ہوئی کیا ریوں میں پھولوں کے رنگ بکھرے ہوئے تھے اور ایک کونے میں لگا ہوا وہی پرا نا نیم کا پیڑ تن کر کھڑا تھا جسکی شاخوں پر جھول کر ہم بڑے ہوئے۔ایک خواب ناک سا ماحول تھا جہاں میں اپنے آپ کو بھول سا گیا تھا۔ تمہاری سانولی سلونی سی بیوی مٹّی کے چولھے پر میرے لئے آلو کے پراٹھے بنا رہی تھی اور دونوں معصوم سی لڑکیاں تخت پردستر خوان لگا رہی تھیں۔کونے میں رکھّے گھڑے سے ٹھنڈا پانی نکال کر جب میں نے اپنے ہونٹو ں سے لگا یا تو جیسے زندہ ہو گیا۔ زندگی تو جیسے کہیں کھو چکی تھی۔
آج یہاں آکر احساس ہوا کہ میں ہوں۔ جب ہم دونوں سر سوں کا ساگ اور آلو کے پراٹھے اچار کے ساتھ کھا رہے تھے ۔بھابی میری تعریفوں سے لال ہوئی جارہی تھیں تمہارے بلند وبانگ قہقے مجھے میرے ہونے کا احساس دلا رہے تھے تب تم میری واپسی کا سنکر اْداس ہو گئے۔ "آج ہی کیوں ؟کچھ دن رک جاؤ میرے یار۔ ابھی تو تجھے جی بھر کے دیکھا بھی نہیں۔۔۔۔"تمہاری آواز میں التجاء تھی۔ "پرسوں واپسی کی فلائٹ ہے یار۔۔۔جا نا تو پڑے گا۔آج کا یہ دن بڑی مشکل سے نکا لا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ہم گھر سے باہر آگئے۔
سامنے یوکلپٹس کی قطار میں چلتے ہوئے ہم ڈھیروں باتیں کر تے رہے۔بچپن کی نہ جانے کتنی ساری یادیں میرے آس پاس کھلکھلاتی ہوئی گھوم رہی تھیں۔شام ہونے لگی تھی۔ہم ڈیوڑھی سے ہوتے ہوئے گھر کے اندر آگئے۔۔۔پھر اچانک ہی تم نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ "میرے لئے بھی کوئی کام ڈھو نڈو یار وہاں۔۔۔" میری حیران نظروں کے جواب میں تم شر مندگی سے مسکرائے۔ "دسیوں کلاس سے آگے تو پڑھ نہیں سکا تھا۔۔تجھے تو سب معلوم ہی ہے۔کوئی چھوٹا موٹا کام۔۔کیسا بھی ہو۔۔کر لوں گا یار مجھے بھی وہیں بلا لے " "لیکن تو نوکری کرے گا ؟ تجھے نوکری کی کیا ضرورت ہے دوست ؟ سب ٹھیک ٹھاک تو ہے " "نہیں یار اب کچھ ٹھیک نہیں ہے زمینیں مقدموں کی نظر ہوگئیں اور تو تو جانتا ہے یہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔لڑکیاں بڑی ہوگئی ہیں گھر کے حالات کیا بتا ؤں تجھے۔بس کام چل رہا ہے۔
میرے لئے کوئی کام دیکھ لے ادھر۔۔بلا لے مجھے " تمہاری آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے اسی لئے آواز بھرا رہی تھی۔مڑ کر بھا بی کی طرف دیکھا ان کے گلابی آنچل میں آس کا اْجا لا تھا۔ بچپن کے ڈھیر سارے دن آگے بڑھے اور ایک ایک کر کے مجھے گلے لگا نے لگے۔ میں شروع ہی سے جسمانی طور سے کمزور تھا۔اور ہمّت بھی کم تھی مجھ میں۔جلد ٹوٹ جا یا کر تا تھا۔ تم ہی تھے جو آگے بڑھ کر مجھے سہارا دیتے تھے ،میری طاقت بن جاتے تھے۔ تم نے پڑھنا چھوڑ دیا مگر میرا سایہ بنے رہے۔ہاتھ میں یہی چمکتی لاٹھی اور چہرے پر بے پناہ حوصلہ۔
مجھے اپنے حصار میں لئے رہے۔ تم میرا غرور تھے میرے دوست میرے ساتھی۔ ۔جب با با نے میرا داخلہ شہر کے اسکول میں کر وا دیا تو تم کتنا اْداس ہوئے تھے۔مجھ سے چھپ کر روئے بھی تھے اور جب میں شہر کے لئے روانہ ہوا۔تم گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہوئے کتنی دور تک چلے آئے تھے ،تمہارے چہرے کی سر خی بتا رہی تھی کہ تم خود پر کتنا جبر کر کے مسکرا رہے ہو۔گاؤں کے آخری موڑ تک ہاتھ ہلا یا تھا تم نے۔ اور پھر زندگی سوکھے پتّے کی طرح مجھ کو یہاں وہاں اڑائے پھری۔ اس اجنبی دیس میں اپنے آپ کو کتنا پرا یا لگتا ہوں میں۔۔۔ بھلا تمکو کیسے بلاْ سکتا ہوں جسکے پاس اپناکہنے کو کچھ نہیں۔
بیوی جس نے یہاں کی شہریت دلوائی اور ایک معمولی نوکری جسکا کوئی مستقبل نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم تو بے حد ریئس ہو ایک نیم کا پیڑ ایک چھپّپر تو تمہارا اپنا ہے نا ؟ میری جیب میں رکھّی ہوئی تمہاری وہ عرضی جو چلتے وقت تم نے مجھے دی تھی اسکا کاغذ دن گزرنے کے ساتھ پیلا ہو گیا ہے اور میں اس بے بسی کے بوجھ تلے بو ڑھا ہو تا جارہا ہوں۔

محترم قارئین 

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیںکہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔

ہم سے فون نمبر 0966122836200 ext: 3428پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔

[email protected] ای میل

شیئر: