Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پارلیمانی لیڈر یا پارٹی سربراہ، ووٹنگ پر ارکان اسمبلی کس کی ہدایت کے پابند ہیں؟ 

خالد رانجھا کے مطابق ’یہ معاملہ آرٹیکل 63 اے کا ہے جس میں پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کی رائے مانی جاتی ہے‘ (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)
پنجاب کی وزارت اعلٰی کے انتخاب میں مسلم لیگ ن کے امیدوار حمزہ شہباز کو کامیاب قرار دے دیا گیا ہے۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے پاکستان مسلم لیگ ق کے 10 ووٹ مسترد کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو وزیر اعلٰی برقرار رکھنے کی رولنگ دی۔  
ڈپٹی سپیکر نے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے لکھے گئے خط کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف پارٹی ارکان کا ووٹ نہیں گنا جاسکتا۔‘  
واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے اپنے ارکان اسمبلی کو اپنی ہی جماعت کے رکن پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دینے کی ہدایت کی تھی۔ پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلٰی کے لیے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار تھے۔  
پارٹی سربراہ کی ہدایات کی خلاف ورزی کی بنیاد پر ڈپٹی سپیکر نے پاکستان مسلم لیگ ق کے ارکان کے پرویز الٰہی کو ڈالے گئے 10 ووٹ مسترد کر دیے۔ 
ارکان اسمبلی کس کی ہدایت کے پابند ہیں؟ قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟  
سابق وزیر قانون خالد رانجھا کے مطابق ’یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کا ہے اور اس میں یہ واضح ہے کہ اس میں پارٹی سربراہ نہیں بلکہ پارلیمانی پارٹی کی رائے مانی جاتی ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’سیاسی پارٹی اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہے۔ پارلیمانی پارٹی کی ایک اپنی شناخت ہے اور وہ جو فیصلہ کرے پارٹی لیڈر بھی اس کا پابند ہوگا۔‘  
خالد رانجھا کے مطابق ’پارٹی سربراہ بنیادی طور پر پارلیمانی پارٹی کی خلاف ورزی کرنے پر کارروائی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو کہہ سکتا ہے، اس لیے پہلا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے، ان کے فیصلے کے خلاف اگر کوئی جاتا ہے تو پھر پارٹی سربراہ کارروائی کے لیے کہہ سکتا ہے۔‘  

حامد خان کے مطابق ’پرویز الٰہی کو ووٹ دے کر ق لیگ کے ارکان نے پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی نہیں کی‘ (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)

ماہر آئین و قانون حامد خان کے مطابق ’آئین میں واضح ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا لیڈر ہدایت دیتا ہے اور جب سزائیں دینے کی بات آتی ہے تب پارٹی سربراہ ڈیکلریشن سپیکر اور الیکشن کمیشن کو بھیجتا ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا جو فیصلہ ہے جس کا حوالہ ڈپٹی سپیکر دے رہے تھے اس فیصلے کے مطابق پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دیا جاتا ہے تو وہ گنا نہیں جاتا یہاں تو پارٹی کی جانب سے کچھ اور ہدایات دی گئی تھیں۔‘  
پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کی دو مختلف آرا ہونے پر سابق وزیر قانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ ’پارلیمانی پارٹی کے ارکان پارلیمانی لیڈر کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہیں نہ کہ سیاسی پارٹی سربراہ کے۔ اس لیے پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل نہ کرنے پر نااہلی کی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔‘  
حامد خان کا کہنا ہے کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ یہ 10 ارکان نے پارٹی کی ہدایات کی خلاف ورزی کی ہے۔ کیسے ایک رکن اپنے خلاف ہی ووٹ دے گا؟ میرے نزدیک ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط ہے۔‘  

شیئر: