Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل سے سکیورٹی معاہدہ، جاپان کی مشرق وسطیٰ میں غیرجانبداری پر سوالیہ نشان

اسرائیل سے معاہدہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کی پاسداری پر بھی غور کرنا چاہیے۔ فوٹو عرب نیوز
جاپان کے وزیر دفاع  یوشوکازو ہمادا سے30 اگست کو اسرائیلی ہم منصب بینجمن گانز نے ٹوکیو میں ملاقات کی ہے جس میں فوجی ساز وسامان اور ٹیکنالوجی سمیت دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینے کی  کوششوں پر بات کی گئی۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ٹوکیو کی اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی ڈیل سے متعلق پیشرفت اسرائیل - فلسطین تنازع کے تناظر میں یکسوئی کے لیے اپنی ساکھ  برقرار رکھنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔

اسرائیلیوں پر بین الاقوامی قوانین کی تعمیل کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ فوٹو عرب نیوز

جاپان اور اسرائیل کے وزرا نے دفاعی تبادلے کے حوالے سے ایک یادداشت پر دستخط کرتے ہوئے علاقائی امن اور استحکام کے حصول کے لیے مل کر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
واضح رہے کہ طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مستقبل کے کسی بھی معاہدے کے لیے جاپان کو غیرجانبداری کے لیے سراہا جاتا رہا ہے۔
عرب نیوز جاپان اور یوگوو کی جانب سے 2019 میں کرائے گئے ایک مشترکہ سروے میں 56 فیصد عربوں کا یہ خیال رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے ثالث کے طور پر کام کرنے کے لیے سب سے قابل اعتبار ممکنہ امیدوار جاپان ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع بینجمن گانز نے ٹوکیو کے اپنے دورے میں جاپان کے وزیر خارجہ یوشیماسا حیاشی سے بھی ملاقات کی ہے جو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دہائیوں پرانے تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے اپنی حکومت کی حمایت کا اعادہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
 

مشرق وسطیٰ میں امن کے ثالث کے طور پر جاپان قابل اعتبار ہے۔ فوٹو عرب نیوز

جاپانی تجزیہ کار اور ٹوکیو کی کیو یونیورسٹی کے پروفیسرکوئیچیرو تناکا کا خیال ہے کہ اسرائیل اور عربوں کے درمیان ابراہام معاہدے کی توسیع اور2020 میں اسرائیل کے ساتھ  کئی عرب ممالک کے طے پانے والے معاہدوں نے جاپان کو فریقین کے مابین  ثالثی کے کردار سے کسی حد تک آزاد کر دیا ہے۔
پروفیسر کوئیچیرو نے عرب نیوز جاپان کو بتایا کہ اس معاہدے کے بعد جاپان مشرق وسطیٰ میں اپنی پالیسی کو متوازن کرنے کی کوشش میں موجود دباؤ سے راحت محسوس کر رہا ہے۔
پروفیسر کوئیچیرو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اس طرح کے کردار کو مسترد کرنے کی وجہ سے ثالثی کے لیے جاپان کا کردار کبھی بھی عملی نہیں ہو سکا۔
جاپان کے سابق خارجہ پریس سیکریٹری تومویوکی یوشیدا نےعرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان ابراہم معاہدے کو مثبت پیش رفت قرار دیا جس سے تناؤ میں کمی اور خطے میں استحکام آ سکتا ہے۔
تومویوکی یوشیدا نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا کہ جاپان فریقین کے درمیان دو ریاستی حل کی حمایت جاری رکھے گا جس کے تحت اسرائیل اور مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست امن اور سلامتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔

جاپانی حکومت اسرائیل اور فلسطین  دونوں فریقوں کی حمایتی ہے۔ فوٹو ٹوئٹر

موجودہ صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ نئے دفاعی معاہدے کے بعد کیا ٹوکیو اب بھی فلسطین کے لیے غیر جانبدارانہ طور پر ثالثی کرنے کی پوزیشن میں ہے؟
ٹوکیو میں فلسطینی اتھارٹی کے سفیر ولید صیام نے بتایا ہے کہ جاپانی حکومت اسرائیل اور فلسطین  دونوں فریقوں کی حمایتی ہے۔
ولید صیام نے کہا کہ جاپان کے اسرائیل کے ساتھ  طویل تاریخی تعلقات ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ جاپان اب بھی دونوں فریقوں کو تصفیے کے حصول میں مدد کرنے میں غیر جانبداری کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
صیام نے کہا کہ ٹوکیو نے اقوام متحدہ کی کئی تنظیموں کے ذریعے ہمیشہ فلسطینیوں کی سب سے زیادہ حمایت کی ہے اس کے پیش نظر فلسطینی اور عام طور پر عرب دنیا جاپان کا بہت زیادہ  احترام کرتے ہیں۔

ابراہم معاہدے سے تناؤ میں کمی اور خطے میں استحکام آسکتا ہے۔ فوٹو ٹوئٹر

ولید صیام  کا کہنا ہے کہ جاپان ریاست فلسطین کی مدد کے لیے پرعزم ہے اور وہ  اقوام متحدہ کی قرارداد پر ہمیشہ قائم رہا ہے۔ علاوہ ازیں مشرقی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور اسرائیل کی غیر قانونی بستیوں کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرتا۔
فلسطینی اتھارٹی کے سفیر کا کہنا ہے کہ جاپان دو ریاستی حل اور فلسطینیوں کی آزادی کے حق کی حمایت کرتا ہے اور جاپان کو کسی چیز کی ضمانت دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہے۔
جاپان کو اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے سے قبل فلسطین کو غیر جانبداری کی یقین دہانی کرانے کی ضرورت نہیں جاپان کو جو چاہے کرنے کا حق حاصل ہے۔
ولید صیام نے بتایا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جب  بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے لیے سب پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا تو جاپان نے اقوام متحدہ میں مضبوط  موقف کے ساتھ اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔

جاپان اقوام متحدہ کی قرارداد کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہے۔ فوٹو عرب نیوز

فلسطینی رہنما کا خیال ہے کہ جو بھی ملک اسرائیل کے ساتھ کسی معاہدے پر دستخط کرتا ہے اسے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی پاسداری پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ولید صیام نے کہا کہ میں جاپان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اسرائیل کے ساتھ اس قسم کی گہری دوستی کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیلیوں پر بین الاقوامی قوانین کی تعمیل کے لیے دباؤ ڈالا جائے کہ اگر عالمی برادری یکجا ہو کر اسرائیل پر دو ریاستی حل کے لیے دباؤ نہیں ڈالتی تو خطے میں کبھی بھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔
دریں اثنا کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل اور چین کے قریبی تجارتی تعلقات کی وجہ سے جاپان نے اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے کا انتخاب کیا ہے۔ درحقیقت جاپان امریکہ پر اپنے دفاعی انحصار کو کم کرنے کے طریقے تلاش کر رہا ہے۔
 

شیئر: