Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا مسلم لیگ نواز نے پنجاب واپس لینے کا ارادہ ترک کر دیا؟

پرویز الٰہی کے حلف اٹھانے کے وقت ن لیگ کا دعوٰی تھا کہ انہیں عہدے پر نہیں رہنے دیا جائے گا (فوٹو:ٹوئٹر)
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اس وقت چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلٰی ہیں اور ان کو تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ خبر گرم تھی کہ جیسے تحریک انصاف نے حمزہ شہباز کی حکومت گرانے کے لیے سیاسی اور قانونی ’وسائل‘ استعمال کیے بالکل ایسے ہی (ن) لیگ بھی کرے گی، تاہم ایک مہینے سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود کسی قسم کی کوئی ہلچل مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی طرف سے نہیں دیکھی گئی۔ جب پرویز الٰہی نے وزیر اعلٰی کا حلف لیا تھا تو ن لیگ کی قیادت کا دعوٰی تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی کو اس عہدے پر نہیں رہنے دیا جائے گا۔  
ایسے میں سوال یہ ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی کیا ہے؟ موجودہ سیاسی صورت حال میں پارٹی کے اندر سب سے زیادہ متحرک سمجھے جانے والے رہنما عطا اللہ تارڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ ’ہم نے اس حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے میرے اوپر جو پرچے کٹوائے گئے ان پر مجھے ضمانت مل چکی ہے، اب میں بھی لاہور میں ہی بیٹھوں گا اور اس حکومت کو جواب دہ بنائیں گے۔ حمزہ شہباز بھی واپس آ گئے ہیں۔ بھرپور طریقے سے اب پارٹی کو متحرک کیا جائے گا۔‘
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ وزیر اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہی کو ہٹانے کے لیے ن کے پاس کوئی حکمت عملی ہے یا نہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے پارٹی صدر کے اختیارات سے متعلق حالیہ فیصلہ اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ موجودہ فیصلے کی روشنی میں مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی ڈس کوالیفیکیشن اگر الیکشن کمیشن میں دائر کی جاتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پہلے دن ہی فارغ ہو جائے گی اس لیے وہ راستہ ہمارے لیے بند ہو چکا ہے۔‘  

عطااللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ پارٹی نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے (فوٹو: پی ایم ایل این، سوشل میڈیا)

خیال رہے کہ اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے ان 25 اراکین صوبائی اسمبلی کو نااہل کر دیا تھا جنہوں نے پارٹی چیئرمین عمران خان کی ہدایت کے مطابق وزارت اعلٰی کے لیے ووٹ پرویز الہی کو دینے کی بجائے حمزہ شہباز کو دیا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پارٹی صدر سے زیادہ طاقت اسمبلی کے اندر موجود پارلیمانی لیڈر کے پاس ہے۔ اگر اس کی رائے کی خلاف ورزی ہو گی تو اراکین پر نااہلی کی شق کا اطلاق ہو گا۔  
مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا انتخاب بھی لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس الیکشن میں آئینی طریقہ کار کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اور بیلٹ پیپرز پر سیریل نمبر لگا کر سیکرٹ بیلٹ کی آئینی منشا کو سبوتاژ کیا گیا۔ تاہم اس پیٹیشن پر بھی ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا۔  

’حمزہ شریف واپس آ گئے ہیں، پارٹی کو بھرپور طور پر متحرک کیا جائے گا‘ (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اب مسلم لیگ ن کے پاس پنجاب میں حکومت کی تبدیلی راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان کی جارحانہ سیاست کی بدولت کچھ امکانات ایسے بھی ہیں کہ شاید ان کی جماعت کے اندر ہی دراڑ پڑ جائے۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت کو کسی قسم کا خطرہ مجھے دکھائی نہیں دے رہا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے نے ساری سیاسی کوششوں کے سامنے بند باندھ دیا ہے۔ اگر ن نے کچھ اور اراکین کو ادھر ادھر کر لیا تو وزیر اعلٰی کے خلاف اسی وقت عدم اعتماد کی تحریک آجائے گی۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر مجھے تو پنجاب کی سیاسی صورت جہاں ہے جیسے ہے کہ بنیاد پر دکھائی دے رہی ہے۔‘  
ن لیگ کی قیادت کا کہنا ہے کہ اس وقت سارا فوکس پنجاب میں ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات پر ہے اور اس حوالےسے پارٹی کو ازسر نو متحرک کیا جا رہا ہے۔

شیئر: