Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس سوم: عرب دنیا کے دیرینہ دوست

ایک شاہی معاون نے انکشاف کیا کہ شہزادہ ’خطے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔‘ (فوٹو:ایس پی اے)
ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے شاہ چارلس اب برطانیہ کے بادشاہ ہیں۔
سنیچر کو سینٹ جیمز پیلس میں شاہ چارلس سوم کو برطانیہ کا بادشاہ مقرر کرنے کی تقریب کا انعقاد ہوا۔
73 برس کے شاہ چارلس نے باضابطہ طور پر نئے بادشاہ کا حلف لیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔
نومبر میں پرنس آف ویلز اور ان کی اہلیہ ڈچز آف کارنوال نے کورونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد غیر ملکی دورے شروع کیے تو مشرق وسطیٰ کا انتخاب کیا۔
عرب نیوز کے مطابق اردن اور مصر کا دورہ کرتے ہوئے شہزادہ چارلس مختلف عقائد اور ثقافتوں کے درمیان پُل بنانے کے اپنے وعدے کی تکمیل کر رہے تھے اور ایک ایسے خطے کے ساتھ اپنی دلچسپی اور محبت کا مظاہرہ کر رہے تھے جس کے ساتھ ان کا ہمیشہ سے گہرا تعلق رہا ہے۔
اپنے اردن کے دورے میں شہزادے نے اُن مہاجرین کی جانب سے ملک میں کیے جانے والے کاموں کو سراہا جن میں سے بہت سے شام میں جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو چکے تھے۔
وہ خاص طور پر پورے خطے میں پناہ گزینوں کی حالت زار پر فکر مند رہے ہیں۔ جنوری 2020 میں ان کا بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کے پہلے برطانیہ کے سرپرست کے طور پر اعلان کیا گیا اور یہ تنظیم 40 ممالک میں کام کر رہی ہے۔
اس تنظیم کا مقصد لوگوں کو بہتر زندگی گزارنے، صحت یاب ہونے اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
اردن میں انہوں نے سات لاکھ 50 ہزار پناہ گزینوں میں سے چند سے ملاقات کی جن میں سے اکثر برطانیہ اور سعودی عرب سمیت عطیہ دہندگان کی معاونت پر انحصار کرتے ہیں۔
عمان میں انہوں نے برطانیہ اور اردن کی شراکت کی علامت کے لیے اور ہاشمی سلطنت اردن کی صد سالہ یادگار کے لیے ایک درخت لگایا۔
قاہرہ میں شہزادے اور ڈچز کا مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے خیرمقدم کیا۔ یہ شہزادے کا مصر کا دوسرا دورہ تھا۔ انہوں نے اس سے قبل 2006 میں دورہ کیا تھا اور اس دورے میں سعودی عرب بھی شامل تھا۔

چارلس کی زندگی بھی ہمیشہ سے عقائد کے درمیان ہم آہنگی کے فروغ کے لیے وقف رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

یہ دورہ مذاہب کے درمیان بہتر افہام و تفہیم اور رواداری کو فروغ دینے اور ماحولیاتی اقدامات کی حمایت اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے پائیدار مواقع اور تربیت کے فروغ کے لیے کیا گیا تھا۔
قاہرہ کی مسجد الازہر کا دورہ کرنے کے بعد شہزادے نے جامعہ الازہر میں ایک تقریر میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے اپنے عزم کو اجاگر کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اپنے پورے دل سے یقین رکھتا ہوں کہ ذمہ دار مرد اور خواتین کو مذاہب کے درمیان باہمی احترام کو بحال کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے اور ہمیں اس بداعتمادی پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے جو بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو زہر آلود کر رہی ہے۔‘
اپنی والدہ (ملکہ الزبتھ دوم) کی طرح جن کا جمعرات کو انتقال ہو گیا، چارلس کی زندگی بھی ہمیشہ سے عقائد کے درمیان ہم آہنگی کے فروغ کے لیے وقف رہی ہے۔
سنہ 2015 میں بی بی سی کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ آپ عقیدے کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ آپ عقائد کے محافظ بھی ہو سکتے ہیں۔ چرچ کا فرض ہے کہ وہ ملک میں تمام عقائد پر آزادانہ عملدرآمد کو تحفظ فراہم کرے۔‘
برطانیہ میں 30 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے ساتھ اسلام ملک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے اور چارلس کی مذہب میں دلچسپی سے سب ہی واقف ہیں۔
سنہ 2015 میں مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ شہزادے نے پچھلے چھ مہینے ایک نجی ٹیوٹر کے ساتھ عربی سیکھنے میں گزارے تھے تاکہ قرآن کو اس کی اصل زبان میں پڑھ سکیں اور عجائب گھروں اور دیگر اداروں میں نوشتہ جات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
ایک شاہی معاون نے انکشاف کیا کہ شہزادہ ’خطے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔‘

قاہرہ کی مسجد الازہر کا دورہ کرنے کے بعد شہزادے نے جامعہ الازہر میں ایک تقریر میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے اپنے عزم کو اجاگر کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اسلامی تاریخ، فن اور ثقافت میں دلچسپی رکھنے والے شہزادہ چارلس نے 1960 کی دہائی میں کیمبرج یونیورسٹی میں ٹرنیٹی کالج میں آثار قدیمہ، علم بشریات اور تاریخ پڑھی۔ چارلس نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ کے ورثے میں گہری دلچسپی لی ہے۔
انہوں نے کئی بار العلا اور اور قدیم نباتائی شہر ہیگرا (جسے 2008 میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر لکھا گیا تھا) کے آس پاس ہونے والے وسیع آثار قدیمہ کے کام کا جائزہ لیا۔
2013 میں سعودی عرب کے دورے پر انہوں نے وادی حنیفہ کی سیر کا لطف اٹھایا اور دیریہ پراجیکٹ پر ایک پریزنٹیشن کو بڑی دلچسپی سے دیکھا۔
چارلس آرٹ کے دلدادہ ہیں اور اس کی ذاتی ویب سائٹ سے ان کی یہ دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔
سنہ 1969 میں چارلس نے رسمی اور غیر رسمی طور پر خطے کے ممالک کے بے شمار دورے کیے۔ نجی دوروں کے علاوہ پرنس آف ویلز چارلس نے اردن کے پانچ، قطر کے چھ، کویت اور متحدہ عرب امارات کے سات اور سعودی عرب کے 12 سرکاری دورے کیے۔
پرنس آف ویلز کے طور پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے باہمی مفادات کو فروغ دینا چارلس کے کام کا حصہ تھا، اور اس مقصد کے حصول میں انہوں نے خطے میں برطانیہ کے سب سے بااثر اتحادی سعودی عرب کے کئی رسمی اور غیر رسمی دورے کیے۔

بادشاہ چارلس سوم نے کئی بار العلا اور اور قدیم نباتائی شہر ہیگرا کے آس پاس ہونے والے وسیع آثار قدیمہ کے کام کا جائزہ لیا (فوٹو:اے ایف پی)

اپنے ملک اور خلیج کی تمام اقوام کے درمیان ایک پل کے طور پر شہزادے کا کردار ہمیشہ باہمی طور پر فائدہ مند رہا ہے۔ مثال کے طور پر فروری 2014 میں ریاض کے دورے کے ایک دن بعد یہ اعلان کیا گیا کہ برطانوی ایرو اسپیس کمپنی نے 72 ٹائفون لڑاکا طیاروں کی مملکت کو فروخت کا ایک معاہدہ مکمل کر لیا ہے۔
سعودی عرب میں چارلس کی فاؤنڈیشن نے جدہ کے پرانے شہر البلاد میں ایک عمارت سازی اور دستکاری پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام قائم کیا جس سے طلبہ کو شہر میں وزارت ثقافت کے بحالی کے منصوبوں میں شامل ہونے کا موقع ملا۔
10 جنوری سے 21 مارچ 2020 تک العلا میں منعقدہ تنتورا میلے میں موسم سرما کے دوران، فاؤنڈیشن نے ’کاسموس، کلر اینڈ کرافٹ: دی آرٹ آف دی آرڈر آف نیچر ان العلا‘ کے عنوان سے ایک نمائش کا انعقاد کیا۔
ملکہ الزبتھ دوم جو جمعرات کو انتقال کر گئیں، مشرق وسطیٰ اور اس کے لوگوں کی ایک تاحیات دوست تھیں جو اس کے رہنماؤں کے قریب تھیں اور عقائد اور ثقافتوں کے درمیان پل بنانے اور برقرار رکھنے کے لیے پرعزم تھیں۔
کنگ چارلس سوم کے دور میں بھی یہ قیمتی دوستی اٹوٹ رہے گی۔

شیئر: