Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرین کا روس سے 3 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ واپس حاصل کرنے کا دعوٰی

یوکرینی صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ 2000 مربع کلومیٹر علاقہ واگزار کرایا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے رواں ماہ روسی افواج سے تین ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ واپس حاصل کر لیا ہے۔
دوسری جانب فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق روس نے کہا تھا کہ اس نے یوکرین کے علاقے خارکیف کے مشرقی حصے سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا ہے جبکہ یوکرین نے بڑے پیمانے پر زیرقبضہ علاقہ واپس لینے کا دعوٰی کیا ہے۔
روسی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ خارکیف کے علاقے میں ’بالاکلیہ اور ازیوم سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ یوکرین میں موجودہ فوج کو پھر سے منظم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ ڈونیسک کے محاذ پر کارروائیاں بڑھائی جائیں۔‘
اسی طرح یوکرین کے ایک سرکاری عہدیدار نے کہا ہے کہ یوکرین کی فوجیں مشرقی شہر لائسچنک کے قریب پہنچ گئی ہیں، جس پر جولائی کے آغاز میں روس نے قبضہ کیا تھا۔
ماسکو کی جانب سے ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات فوجیں پیچھے ہٹانے اعلان سامنے آیا جبکہ یوکرین نے اس قبل کہا تھا کہ اس کی فوجیں کوپیانسک میں داخل ہو گئی ہیں۔
ماہرین کے مطابق کئی ماہ کی لڑائی میں موجودہ صورت حال انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ مشرقی حصے پر زیادہ تر ماسکو کا قبضہ تھا۔
روئٹرز کے مطابق سنیچر کو خارکیف کے علاقے میں یوکرین کی افواج نے اچانک پیش قدمی کی اور روس کو ازیوم شہر سے نکلنا پڑا جس کو روس کی بڑی شکست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے اس کو چھ ماہ کی جنگ میں اپنی اہم کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نہ صرف روسی فوجی علاقے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں بلکہ جاتے ہوئے بھاری مقدار میں اسلحہ اور دوسرا سامان بھی چھوڑ گئے ہیں۔
روسی فوج ازیوم کے علاقے کو لاجسٹک بیس کے طور پر استعمال کر رہی تھی اور یہیں سے اس کی اہم کارروائیاں کنٹرول ہوتی تھیں۔
روس کی سرکاری نیوز ایجنسی ٹاس نے وزارت دفاع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ فوجوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس علاقے سے نکل جائیں اور ڈونیسک میں دوبارہ آپریشن شروع کریں۔
خارکیف میں روسی انتظامیہ کے سربراہ نے علاقے کے مکینوں کو صوبے سے نکل کر روس منتقل ہونے کا کہا ہے تاکہ ’جانیں بچائی جا سکیں۔‘
ٹاس کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ’وہاں سے لوگ نکل جانے کی کوشش میں ہیں اور رش کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہے۔‘

روسی فوج ازیوم کو لاجسٹک بیس کے طور پر استعمال کر رہی تھی. (فوٹو: اے ایف پی)

اگر یوکرین کے دعوے درست ہیں تو یہ روس کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے جبکہ مغربی خفیہ اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کو بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔
دوسری جانب موجودہ صورت حال کو یوکرین کی اہم کامیابی قرار دیا جا رہا ہے جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک اس کو ہتھیاروں کی جو فراہمی کر رہے ہیں اس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھایا رہا ہے۔
کیئف پر دباؤ ہے کہ وہ موسم سرما شروع سے ہونے قبل جنگی کامیابیاں حاصل کرے کیونکہ روسی صدر پوتن دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر برسلز نے روس کے تیل کی قیمتوں میں کمی کی تجویز کا ساتھ دیا تو وہ یورپ کو تمام توانائی کی شپمنٹس روک دیں گے۔
یوکرین کے وزیر خارجہ  دمیترو کولیبا کا کہنا ہے کہ یوکرین کی فوجوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اسے مہیا کیے جانے والے ہتھیاروں کی بدولت روس کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

پسپائی کو روس کی بڑی ناکامی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)

ان کے مطابق ’اس لیے میں دُہراتا ہوں کہ ہم کو جتنے زیادہ ہتھیار ملیں گے اتنی ہی تیزی سے ہم جیتیں گے اور اتنی ہی جلدی جنگ ختم ہو گی۔‘
سنیچر کی رات یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ہماری فوج نے اس ماہ کے آغاز سے شروع ہونے والے جوابی حملے کے نتیجے میں دو ہزار مربع کلومیٹر کے قریب مقبوضہ علاقہ واگزار کرایا ہے۔‘  
اسی طرح زیلنسکی کے چیف آف سٹاف اینڈرے یرمارک نے طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’روسی فوج دنیا کی تیز ترین فوج ہونے کا دعوٰی کرتی ہے مگر بھاگنے میں۔ بھاگتے رہیے۔‘

شیئر: