Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈالر اور ریال خریدنے کے لیے کون سی دستاویزات ضروری؟

کیش کی شکل میں ادائیگی کرکے صرف دو ہزار سے کم ڈالرز کے برابر فارن کرنسی خریدی جا سکتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سٹیٹ بینک کی جانب سے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنے پر پابندیاں مزید سخت کر دی گئی ہیں اور منی ایکسچینجرز کو دی جانے والی نئی ہدایات کے تحت اب دو ہزار ڈالر کی مالیت سے زائد کوئی بھی دیگر غیر ملکی کرنسی خریدنے کے لیے شناختی کارڈ کے علاوہ بینک سٹیٹمنٹ، ویزا، ٹکٹ یا دیگر دستاویزات دینا لازمی ہوں گی۔
کرنسی ڈیلرز کے مطابق گزشتہ دنوں سٹیٹ بینک کے ایکسچینج پالیسی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنے والوں کے لیے نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں جس کے باعث اب عام آدمی کے لیے بغیر وجہ ڈالرز خریدنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک ملک میں ڈالرز کی کمی کی وجہ سے اس امر کو یقینی بنا رہا ہے کہ ڈالرز یا غیر ملکی کرنسی صرف ان افراد کو دی جائے جن کو اس کی حقیقی ضرورت ہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ کنٹرولز لگانے کا مقصد یہ ہے کہ ڈالرز ذخیرہ کرنے کی روش کو کم کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہدایات ای پی ڈی کی طرف سے جاری کی جاتی ہیں اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ہدایات کے مطابق بھی پہلے ہی تمام مالی اداروں کو اپنے کسٹمرز کے بارے میں مکمل معلومات رکھنے کی ہدایات ہیں۔

ڈالرز، ریال اور فارن کرنسی خریدنے کے لیے کون سی دستاویزات لانا ہوگی؟

اس حوالے سے چیئرمین فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان نے اردو نیوز کو بتایا کہ سٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق اب دو ہزار یا اس سے زائد ڈالرز یا اس کے برابر مالیت کے ریال یا کوئی اور کرنسی خریدنے کے لیے لازم ہے کہ خریدار بینک چیک کی شکل میں روپے میں کرنسی ڈیلر کو ادائیگی کرے جس کے بعد ہی اسے ڈالرز یا ریال ادا کیے جائیں گے۔
گویا کیش کی شکل میں ادائیگی کرکے صرف دو ہزار سے کم ڈالرز کے برابر فارن کرنسی خریدی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ اسی مقدار میں فارن کرنسی خریدنے کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ کسٹمر اس کی وجہ بتائے۔
’ہم ان سے وجہ پوچھتے ہیں اگر وہ بتائیں کہ وہ بیرون ملک جا رہے ہیں تو ان سے سفری دستاویزات کی کاپیاں مانگی جاتی ہیں اسی طرح اگر کوئی کسی اور وجہ سے غیر ملکی کرنسی خریدتا ہے تو اس کی وجہ بھی بتانی پڑے گی اور ساتھ دستاویزی ثبوت بھی فراہم کرنا ہوگا۔‘
اس کے بعد خریدار کو اپنی آمدنی کا زریعہ بھی بتانا پڑے گا اور اس سلسلے میں سروس کارڈ وغیرہ کی کاپی دینا ہوگی۔ اس طرح  اگر کوئی شخص دس ہزار ڈالر سے زائد کرنسی خریدے گا تو اسے بینک سٹیٹمنٹ بھی ساتھ لگانی ہو گی۔
اس کے علاوہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ دس ہزار ڈالر اور ایک سال میں زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ ڈالرز کی خریداری کی حد بھی مقرر کر دی گئی ہے۔
ملک بوستان کے مطابق دو ہزار ڈالر سے کم  غیر ملکی کرنسی کی خرید پر زیادہ دستاویزات طلب نہیں کی جاتیں اور صرف زبانی معلومات کے بعد بھی کرنسی دے دی جاتی ہے۔

عابد قمر کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈالرز کی شکل میں کرنسی لانے پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ نئی ہدایات کے بعد اب سرمایہ کاری کے لیے ڈالرز خریدنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور صرف سفر یا کسی خاص مقصد  کے تحت ہی ڈالرز لیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈالر کے ریٹ میں بھی کمی آ رہی ہے اور اسکی قلت بھی کم ہو رہی ہے۔
ملک بوستان کے مطابق ماضی میں لوگ بغیر تفصیلات بتائے بڑی مقدار میں ڈالرز خرید کر رکھتے رہے ہیں اور اسے ایک طرح کی سرمایہ کاری سمجھتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2008 سے اب تک جن لوگوں نے ڈالرز رکھے ہوئے تھے ان کی قیمت فی ڈالر 54 روپے سے 240 روپے تک جانے سے انہوں نے خطیر منافع کمایا۔ تاہم اگر ڈالر کی قیمت مستحکم ہو جائے تو پھر اس میں سرمایہ کاری کا رجحان بھی ختم ہو جاتا ہے۔
ڈالرز بیچنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کوئی شخص اگر اوپن مارکیٹ میں ڈالر بیچنا چاہے تو اس پر کوئی زیادہ پابندیاں نہیں ہیں اور وہ صرف اپنا شناختی کارڈ لا کر کسی منی چینجر کو ڈالر بیچ سکتا ہے۔
سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر کا بھی کہنا تھا کہ ملک میں ڈالرز کی شکل میں کرنسی لانے پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں زرمبادلہ آئے۔

شیئر: