Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے خلاف بننے والے بیانیے عوام میں کیوں مقبول نہیں ہورہے؟

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی نے سازش کے بیانیے کو مسترد کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا بیانیہ عوام میں مقبول ہو رہا ہے۔ 
اپریل میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے پہلے ضمنی انتخابات اور حتیٰ کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں بھی پاکستان تحریک انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے عمران خان کی مقبولیت میں کمی قرار دیا جا رہا تھا۔
تاہم ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ہونے والے تمام ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج نہ صرف عمران خان کے حق میں آئے ہیں، بلکہ پارٹی کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے عوام میں مقبول بیانیے کے خلاف ان کی حریف جماعتوں نے مختلف بیانیے بنائے، تاہم ان بیانیوں کو عوام میں اس حد تک پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ 
عمران خان کے خلاف بننے والے بیانیے اب تک کیوں مقبول نہیں ہو پا رہے، یہ جاننے سے پہلے آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ ان کے سیاسی حریفوں نے کون کون سے بیانیے تشکیل دیے ہیں۔

عمران خان کے خلاف بننے والے بیانیے

سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت گرانے کو غیر ملکی سازش قرار دیتے ہوئے امریکہ پر الزام عائد کیا تھا۔ حکومتی اتحاد نے عمران خان کا امریکی سازش کے بیانیے کو کاؤنٹر کرنے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس نے سازش کے بیانیے کو مسترد کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان فوج کے ترجمان نے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ سازش کے بیانیے کو مسترد کیا۔  

خاتون اول بشریٰ بی بی اور فرح خان پر کرپشن کے الزامات  

اقتدار سے نکالے جانے کے بعد چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرح خان عرف فرح گوگی پر پنجاب میں مبینہ کرپشن کے الزامات بھی لگائے گئے۔
اس حوالے سے پنجاب اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نے فرح خان کے خلاف انکوائری کا آغاز بھی کیا۔ بشریٰ بی بی پر مبینہ طور پر پنجاب حکومت پر اثرانداز ہونے اور اثاثوں میں اضافے کے الزامات بھی عائد کیے گئے، تاہم اپوزیشن کی جانب سے یہ بیانیہ بھی چند روز ہی سرخیوں میں رہا اور عوام میں پذیرائی حاصل کر سکا۔  

سابق وزیراعظم عمران خان پر توشہ خانہ کے تحائف بیچنے کے الزامات بھی سامنے آئے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

توشہ خانہ ریفرنس 

عمران خان پر توشہ خانہ کے تحائف بیچنے کے الزامات بھی سامنے آئے۔ ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر ریفرنس پر فیصلہ محفوظ ہے۔ دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن پر جانب داری کے الزامات سے نہ صرف الیکشن کمیشن متنازع ہو چکا ہے بلکہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کر دیا گیا ہے۔  

ممنوعہ فنڈنگ کیس  

پاکستان تحریک انصاف پر ممنوعہ فنڈنگ حاصل کرنے کا الزام تو آٹھ سال پرانا ہے، تاہم الیکشن کمیشن میں دائر اس کیس کو ان کے سیاسی مخالفین نے عمران خان کے خلاف بیانیے کے طور پر استعمال کیا۔  
ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن اپنا فیصلہ سنا چکا ہے لیکن تاحال وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر نہیں کیا۔  

آڈیو لیکس 

پاکستان کی سیاست میں ابھی حال میں ہی آڈیو لیکس کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس میں نہ صرف عمران خان بلکہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی بھی خفیہ بات چیت منظرعام پر آئی۔  
آڈیو لیکس میں نہ صرف خاتون اول کی گفتگو سامنے آئی بلکہ مبینہ طور پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی بھی آڈیو منظرعام پر آئی ہے جس میں ’وہ سابق خاتون اول کو ہیروں کا ہار دینے‘ سے متعلق گفتگو کرتے سنے جا سکتے ہیں۔  

عمران خان کے سیاسی مخالفین ان کے خلاف کوئی بیانیہ مقبول بنانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس کے علاوہ سابق وزیراعظم عمران خان کی امریکی سازش سے متعلق بھی متعدد آڈیوز سامنے آئی ہیں جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’ہم نے امریکہ کا نام نہیں لینا صرف اس خط پر کھیلنا ہے۔‘  
ان تمام بیانیوں کے باجود تاحال عمران خان تمام ضمنی انتخابات کے نتائج سے ثابت کر رہے ہیں کہ ان کا بیانیہ مقبول ہے اور ان کے سیاسی مخالفین ان کے خلاف کوئی بیانیہ مقبول بنانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔  

عمران خان کے خلاف بننے والے بیانیے کیوں مقبول نہیں ہو رہے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف آنے والی عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق جو بیانیہ اپنایا ہے وہ مختلف ہے۔
’جو بھی حکومت ہٹائی جاتی ہے وہ اپنے حق میں ایک بیانیہ تو بناتی ہے، عمران خان کے خلاف بظاہر آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد لائی گئی، لیکن عمران خان نے جو بیانیہ اپنایا وہ مختلف تھا اور انہوں نے بظاہر آئینی طریقے کو امریکی سازش قرار دے دیا۔‘
مظہر عباس کے خیال میں ’عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کو اتنی پذیرائی ملی ہے کہ اب عوام ان کے خلاف ہر بیانیے کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جو بھی چیز ان کے خلاف ہو رہی ہے انہیں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔‘  
‘عمران خان کے خلاف کچھ بیانیے ایسے بھی بنے جو کسی حد تک درست بھی تھے جیسے فارن فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ ریفرنس، لیکن جس طرح عمران خان نے جارحانہ انداز میں بیانیہ بنایا ہے، یہ تاثر ملتا ہے کہ ہر چیز میں ہی ان کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔‘  
ان کے مطابق ’عمران خان کا بیانیہ مقبول ہونے کی ایک وجہ جارحانہ انداز بھی ہے، جبکہ ان کے مقابلے میں حکمران اتحاد کا جوابی بیانیہ جیسا بھی ہو اسے اپریل کے تناظر میں ہی دیکھا جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر عائشہ اشفاق کے خیال میں ’پاکستانی عوام میں امریکہ مخالف جذبات اور مذہبی رجحان موجود ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’عمران خان جب اقتدار میں تھے اور جس طرح اپوزشین رہنماؤں کے خلاف نیب کیسز بنائے جا رہے تھے وہ بھی زیادہ مقبول نہیں ہو رہے تھے، اور اس وقت جتنے ضمنی انتخابات ہوئے اس میں ان کے مخالفین کامیاب ہوئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب آپ اقتدار میں ہوں عوامی مقبولیت یا مقبول بیانیہ بنانا آسان نہیں۔‘  

’عمران خان کی ابلاغیات کی حکمت علی بہتر اور زیادہ موثر ہے‘ 

ماہر ابلاغیات ڈاکٹر عائشہ اشفاق کے مطابق ’عمران خان کے خلاف بننے والے بیانیے اس لیے مقبول نہیں ہو رہے کیونکہ ان کے مخالفین کی حکمت عملی عمران خان کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہے، ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال پی ڈی ایم کی قیادت اس موثر انداز میں نہیں کر رہی جس طرح عمران خان یا ان کے جماعت اور حمایتی کرتے نظر آرہے ہیں۔‘ 
وہ سمجھتی ہیں کہ ’عمران خان کی کمیونیکیشن کی حکمت عملی مخالفین کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور مضبوط ہے، تحریک انصاف یا عمران خان جس طرح ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کرتی ہے ان کے حریف اس طرح ڈیجیٹل میڈیا کے ٹولز کا استعمال نہیں کر رہے۔‘
’عمران خان ایک جدید حکمت عملی کو اپنا رہے ہیں جبکہ ان کے مخالفین روایتی سیاست کے ساتھ ساتھ روایتی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔‘ 
ڈاکٹر عائشہ اشفاق کے خیال میں ’پاکستان کے عوام میں امریکہ مخالف جذبات اور مذہبی رجحان موجود ہے، عمران خان نے امریکہ مخالف بیانیہ اپنایا ہے جو کہ پاکستان میں ایک مقبول بیانیہ ہے۔ وہ مذہب اور اصولوں کی بات کرتے ہیں جس میں وہ کبھی میر صادق اور میر جعفر جیسے القابات استعمال کر کے اپنا بیانیے کو مضبوط بناتے ہیں۔‘ 

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’اگر عمران خان لانگ مارچ کی کال نہ دے سکے تو ان کی مقبولیت پر فرق تو پڑے گا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کیا عمران خان کا بیانیہ کی مقبولیت میں کمی آئی گی؟  

مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ ’وقت بدلتا رہتا ہے، اس وقت عمران خان کا وقت ہے، مارچ میں عمران خان کی مقبولیت اتنی نہیں تھی جو آج ہے، لیکن پاکستان میں بیانیہ اور عوامی مقبولیت بدلتے رہتے ہیں۔‘  
’اگر عمران خان لانگ مارچ کی کال نہ دے سکے یا لانگ مارچ میں عوام کو برٰ تعداد میں باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو ان کی مقبولیت پر فرق تو پڑے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان کے بیانیے کو اس وقت بھی دھچکہ لگے گا اگر ان کی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کوئی ڈیل ہو جائے اور حکومت کو استعفٰی دینے پر مجبور کر دیا جائے، کیونکہ جس اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف وہ بات کر رہے ہیں ان کی مدد سے حکومت کو گھر بھیجنے پر ان سے سوال تو ہوں گے، البتہ اس وقت عمران خان کا وقت ہے اور وقت بدلتا رہتا ہے۔‘

شیئر: