Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہائیوں بعد پالیسی میں تبدیلی، جاپان کا نئے میزائل خریدنے کا اعلان

رائے شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ جاپان کے عوام بڑی حد تک اس تبدیلی کی حمایت کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
جاپان نے چین کو اپنی سلامتی کے لیے ’سب سے بڑا خطرہ‘ قرار دینے کے بعد اپنی دفاعی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی منظوری دے دی ہے۔
جاپان کی جانب سے فوجی قوت کے حوالے سے اپنی پالیسی میں یہ تبدیلی کئی دہائیوں بعد سامنے آئی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جاپان نے 2027 تک سکیورٹی کے اخراجات کو دو فیصد تک بڑھانے، اپنی فوجی کمان کو نئی شکل دینے اور ایسے نئے میزائل حاصل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے جو دشمن کے دور دراز علاقوں کو نشانلہ بنا سکتے ہیں۔
جاپان کے وزیراعظم فومو کیشیدا نے جمعے کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ وہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر ملک اور اس کے عوام کے تحفظ اور دفاع کے لیے اپنے مشن میں ثابت قدم رہنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
انہوں نے یوکرین پر روس کے حملے کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پڑوسی ممالک اور خطے میں جوہری میزائل کی صلاحیتوں میں اضافہ، فوج کی تیزی سے تشکیل، طاقت کے ذریعے یکطرفہ طور پر سٹیٹس کو تبدیل کرنے کی کوششیں اور زیادہ واضح ہو گئی ہیں۔‘
رائے شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ جاپان کے عوام بڑی حد تک اس تبدیلی کی حمایت کرتے ہیں تاہم یہ تبدیلی متنازع بھی ہو سکتی ہے کیونکہ جاپان کا دوسری جنگ عظیم کے بعد مرتب کیا گیا آئین سرکاری طور پر فوج کو تسلیم نہیں کرتا۔
جمعے کو کابینہ کی جانب سے منظور کردہ تین دفاعی اور سکیورٹی دستاویزات میں بیجنگ کو ’جاپان کے امن و استحکام  کے لیے اب تک کا سب سے بڑا سٹریٹیجک چیلنج‘ قرار دیا گیا ہے۔
جاپان کی حکومت مالی سال 2027 تک اپنے دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے دو فیصد تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

دفاعی پالسیی کے تحت موجودہ امریکی ساختہ ٹوماہاک میزائل کی خریداری بھی شامل ہو گی (فوٹو: اے ایف پی)

یہ ماضی کے تقریباً ایک فیصد کے اخراجات سے نمایاں اضافہ ہے اور تنقید کی جا رہی ہے کہ اس کی مالی اعانت کیسے کی جائے گی؟
دستاویزات میں خبردار کیا گیا ہے کہ جاپان کا موجودہ میزائل انٹرسیپشن سسٹم اب کافی نہیں ہے۔
وزیراعظم فومو کشیدا نے کہا ہے کہ ’جوابی حملے کی صلاحیت مستقبل میں ضروری ہو گی۔‘
جاپانی حکومتیں طویل عرصے سے یہ تجویز کرتی رہی ہیں کہ دشمن کے حملوں کو بے اثر کرنے کے لیے جوابی حملے آئین کے تحت جائز ہوں گے۔
تاہم اب چین کی فوجی طاقت میں اضافےاور حالیہ مہینوں میں شمالی کوریا کے میزائل لانچوں کے بعد اب پالیسی تبدیل کی ہے۔
معاملے کی حساسیت  سمجھتے ہوئے دستاویزات میں قبل از وقت حملوں کو مسترد کای گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گای ہے کہ جاپان ’خصوصی طور پر دفاع پر مبنی پالیسی‘ کے لیے پُرعزم ہے۔
دفاعی پالسیی کے تحت موجودہ جاپانی ہتھیاروں کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی ساختہ ٹوماہاک میزائل کی خریداری بھی شامل ہو گی۔
دیگر تبدیلیوں میں جاپان کی مسلح افواج کے لیے ایک مستقل مشترکہ کمانڈ کا قیام اور اس کے ساحلی محافظوں میں اضافہ شامل ہے۔

شیئر: