Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریلوے کو اربوں کا خسارہ لیکن ریسٹ ہاؤسز ’سستی ترین رہائش گاہ‘

اپریل سے اکتوبر 2022 تک ریلوے کا خسارہ 35 ارب روپے سے زائد تھا (فوٹو: اے ایف پی)
40 سے 50 ارب روپے سالانہ خسارے میں چلنے والے پاکستان ریلویز نے اپنے اثاثے بالخصوص اپنے ریسٹ ہاؤسز میں قیام کرنے والے افسران اور ملازمین کے لیے یومیہ کرایوں میں کئی دہائیوں سے نظرثانی نہیں کی جس وجہ سے ریلوے ریسٹ ہاؤسز پاکستان کے سستے ترین ریسٹ ہاؤسز میں شمار ہوتے ہیں جہاں یومیہ کرایہ 40 سے 180 روپے وصول کیا جا رہا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب پاکستان ریلوے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلویز نے ملک بھر میں اپنے نیٹ ورک پر ریسٹ ہاوسز بنا رکھے ہیں۔ یہ ریسٹ ہاوسز ملک کے 66 شہروں میں موجود ہیں۔ کچھ ریسٹ ہاوس صرف ریلوے افسران جبکہ کچھ افسران اور ماتحت ملازمین کے لیے مخصوص ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان ریسٹ ہاوسز میں اکثر قیام پاکستان سے پہلے تعمیر کیے گئے تھے، جبکہ چند ایک کچھ سال پرانے ہیں۔ ملک بھر کے 11 ڈویژنز میں ریلوے کے کل 83 ریلوے کے ریسٹ ہاوسز ہیں جن میں 830 کمرے ہیں۔
کراچی ڈویژن میں 13 ریلوے ریسٹ ہاوسز میں کل 46 کمرے ہیں۔ کراچی ڈویژن کے ریسٹ ہاوسز میں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسر 180 روپے فی دن کے حساب سے مستقل اور ان کے ماتحت فی دن 40 روپے کے حساب سے مستقل رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔
اس طرح لاہور ڈویژن میں ریلوے کے 16 ریسٹ ہاوسز میں کل 68 کمرے قائم ہیں۔ لاہور ڈویژن کے ریلوے ریسٹ ہاوسز میں ریلوے افسر فی دن 180 روپے اور ماتحت ملازم فی دن 70 روپے کے حساب سے مستقل رہائش اختیار کرسکتے ہیں، جبکہ مغلپورہ لاہور کے ریسٹ ہاوسز میں  ریلوے کے گریڈ 17 سے 22 تک کے افسر صرف 70 روپے فی دن کے دے کر رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔
کوئٹہ ڈویژن میں قائم ریلوے کے 2 ریسٹ ہاوسز میں 18 کمرے ہیں۔ کوئٹہ کے ریلوے ریسٹ ہاوس میں ریلوے افسر مستقل طور فی دن 180 روپے کرایہ دے کر رہائش اختیار کر سکتا ہے، آن ڈیوٹی ریلوے افسران سے صرف 500 فی دن کا کرایہ لیا جاتا ہے، جبکہ کوئٹہ گھومنے کے لیے آنے والے ریلوے افسران اور ان کے مہمان فی دن 25 سو روپے دے کر رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔  
پشاور کے 9 ریلوے ریسٹ ہاوسز میں 34 کمرے ہیں۔ یہاں پر مستقل رہائش پذیر افسران یومیہ 180 روپے، ڈیوٹی پر آنے والے افسران سے 500 روپے یومیہ، جبکہ سیر و تفریح کے لیے آنے والے افسران یا ان کے مہمانوں سے 25 سو روپے یومیہ کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔
سکھر ڈویژن کے 9 ریلوے ریسٹ ہاوسز میں 43 کمرے، ملتان کے 2 ریلوے ریسٹ ہاوسز میں 18 کمرے قائم ہیں۔ یہاں پر بھی مستقل رہائش پذیر افسران یومیہ 180 روپے، ڈیوٹی پر آنے والے افسران سے 500 روپے یومیہ، جبکہ سیر و تفریح کے لیے آنے والے افسران یا ان کے مہمانوں سے 25 سو روپے یومیہ کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔  
راولپنڈی کے 8 ریلوے ریسٹ ہاوسز میں 76 کمرے قائم ہیں۔ راولپنڈی ڈویژن کے ریلوے گیسٹ ہاوس میں کچھ کمرے ریلوے افسران کو الاٹ کیے گئے ہیں جبکہ کچھ تین ہزار روپے ماہانہ یعنی 100 روپے یومیہ کرائے پر ماتحت ملازمین کو الاٹ کیے گئے ہیں۔ اسی طرح کچھ گیسٹ ہاوسز میں کرایہ 180 روپے یومیہ جبکہ ایک آدھ دن کے لیے آنے والے افسران کو 500 روپے یومیہ کرائے پر کمرے دیے جاتے ہیں۔

ریلوے حکام کے مطابق ان ریسٹ ہاؤسز کی حالت ایسی نہیں ہے کہ انہیں تجارتی بنیادیوں پر استعمال کیا جا سکے (فوٹو: اے ایف پی)

 اسلام آباد میں ایک ریلوے ریسٹ ہاؤس میں 4 کمرے اور رسالپور کے تین ریلوے رسیٹ ہاوسز میں 15 کمرے ہیں، جن کا کرایہ 180 روپے یومیہ مقرر کیا گیا ہے۔
ریلوے کی اپنی ہی ایک اور رپورٹ کے مطابق صرف اپریل سے اکتوبر 2022 تک ریلوے کا خسارہ 35 ارب روپے سے زائد تھا۔ ریلوے کی آمدن 33 ارب  اور اخراجات 69 ارب روپے سے زائد رہے جبکہ ریلوے کے ایک لاکھ 25 ہزار پنشنرز کو سالانہ 75 ارب روپے سے زیادہ کی رقم دی جا رہی ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں ریلوے ریسٹ ہاوسز کو سیاحوں کے لیے کھولنے سمیت  تجارتی بنیادوں پر چلا کر ان کے ذریعے ریلوے اخراجات پورے کرنے اور خسارے میں کمی لانے کے اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے؟
اس سوال کے جواب میں ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ ریسٹ ہاوسز ریلوے ٹریکس کے قریب ترین ہیں اس لیے ریلوے افسران ہی انہیں استعمال میں لانا چاہتے ہیں، جبکہ ان میں سےاکثریت قیام پاکستان سے پہلے تعمیر کیے گئے تھے اس لیے ان کی حالت ایسی نہیں ہے کہ انہیں تجارتی بنیادیوں پر استعمال کیا جا سکے۔ اگر انہیں بحال کیا جائے تو ایسا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے اچھی خاصی رقم درکار ہے۔ ایسی صورت میں گیسٹ ہاوسز میں قیام پذیر ریلوے افسران اور ملازمین کو متبادل رہائش گاہیں فراہم کرنا ہوں گی۔

شیئر: