Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’دیوانہ ہے ،دیوانے سے کیا بات کرو ہو‘‘

ڈاکٹر کلیم احمدعاجز کہتے تھے کہ ہوش سنبھالتے ہی مجھے ادب سے بھی دلچسپی رہی اور شاعری سے بھی
 - - -- - - - - - - - -  --
زینت شکیل ۔ جدہ
- - - - - - - - - - - -
مالکِ حقیقی نے انسان کو بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔ ذہانت ، شعور ، ادراک اور فہم سے پوری دنیا مستفید ہورہی ہے ۔ اس کے دو طریقے ہیں وہ عمل جو نظر آتے ہیں یعنی ترقی ، مادی چیزوں میں اور دوسری وہ نیت جو نظر نہیں آتی لیکن اس کی قدر وقیمت سب سے زیادہ ہے بلکہ ہر عمل کا دارومدار ہی نیت پر ہے ۔ ڈاکٹر کلیم عاجز بھی اپنی شاعری میں نثر میں یہی بات دہراتے چلے گئے کہ دماغ کی کھڑکیاں تنگ کرو اور دل کے دروازے کشادہ کرو۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ: *چاہتے ہیں تیرے ہی دامن کی خبر *ہم ہیں دیوانے ہمیں کیا چاہئے استقامت ، مضبوطی، وسعت نظری ، ایک کمزور جسم کو بھی روحانی قوت عطا کردیتی ہے، ڈاکٹر کلیم عاجز اس کی مثال تھے۔ 1947ء میں تہاڑہ میں اپنے خاندان کے 22 افراد کی شہادت نے انہیں اتنا بڑا غم دیا کہ جو اشعار میں ڈھلنے لگا۔ کلیم عاجز کا پہلا انقلاب انگیز مجموعۂ غزل ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘تھا۔ لوگوںنے 40سال بعد بھی اس کی اہمیت کم نہ ہونے دی۔ یقینا یہ رب کریم کی مدد سے ہی ممکن ہو سکاہے۔ ’’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘‘ میں انہوں نے بے حد حسین پیرائے میں وہ بات کہی جو دراصل دل کی کہی دل تک پہنچنے والی کیفیت میں ہی سمجھی جاسکتی ہے ۔ یعنی لکھا ہے ’’غالب کہتے ہیں‘‘
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ غالب کہہ رہے ہیں کچھ اور مطلب ہے کچھ اور،وہ چاہتے ہیں کہ خدا کرے سب سمجھ جائیں۔ سب اس لئے مررہے ہیں کہ خدا کرے ان کا کہا لوگ سمجھ جائیں ۔ تمام شاعری ، تمام ادب، تمام فن، تمام آرء اس خواہش ، اسی تمنا اسی اضطراب کی تخلیق ہیں ، میں بھی اس طرح کی بات کہتا ہوں:
بکنے بھی دو عاجز کو جوبولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے ،دیوانے سے کیا بات کرو ہو
اسی تصنیف میں آگے چل کروہ کہتے ہیں کہ : ’’میرے خاندان میں کئی پشت اوپر سے نہ کوئی ادیب گزرا نہ کوئی شاعر ، لیکن ہوش سنبھالتے ہی مجھے ادب سے بھی دلچسپی رہی اور شاعری سے بھی ۔ یہ دلچسپی میرے اسلاف کو بھی تھی۔ اسی حوالے سے بتاتے ہیں کہ ادب اور شاعری مجھے گھٹی میں ملی۔ شاعری سے تو رابطہ باضابطہ بہت دنوں بعد ہوا لیکن نثری ادب سے تعلق بہت بچن سے رہا۔ بہت پڑھا بھی اور بہت کہا بھی۔
داستان ، کہانی ، ناول، افسانہ ، ڈرامہ ، مضامین ، انشائیہ، طنزیات ، مزاحیات ، فکاہات کوئی ایسی صنف نہیں جو بالا ستعیاب مطالعے سے نہ گزری ہو اور کوئی ایسا مصنف ، ناول نگار، داستان گو ، افسانہ نویس، مضمون نگار ، ڈراما ٹسٹ ، طنز نگار، مزاج نگار ایسا نہیں جس کو خوب نہ پڑھا ہو اور سب کے مختلف اور متنوع انداز اور اسلوب سے شناسائی نہ ہوئی ہو۔ وہ جہاں جاتے ،جن ملکوں کی مجالس میں شرکت کرتے ،واپسی میں کوئی پوچھتا کہ وہاں آپ نے فلاں دنیا کی سب سے عجوبہ چیز دیکھی ؟ وہ جواب دیتے کہ ہم چیزیں دیکھنے کہاں جاتے ہیں ، ہم تو اپنے جیسے لوگوں سے ملنے ، اپنی کہنے ان کی سننے کیلئے سفر کرتے ہیں کہ مالک حقیقی نے ہمیں ایک دوسرے کو دین کے رشتے میں جوڑ دیا ہے۔ چاہے ہم دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود ہوں۔ کئی مرتبہ ایئرپورٹ پرایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے کہ لوگ آرہے ہیں ،کلیم عاجز سے مصافحہ کررہے ہیں ، معانقہ کررہے ہیں اور جب پوچھو کہ ماموں جان آپ انہیں جانتے ہیں تو ایک مسکراہٹ کے ساتھ جواب ملتا اور بس ! یقینا وہ لوگ ماموں کو جانتے تھے مگر ماموں جان ہمیں سوگوار چھوڑ گئے کہ ہر ایک اس دنیا میں مسافر ہے اورہر کسی کو گھر واپس جانا ہی ہے۔ اس کی تیاری مقدم رکھنی چاہئے۔

شیئر: