Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات کا بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا

منگل کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عدالتی اصلاحات کے مسودے کی منظوری دی گئی (فوٹو: اے ایف پی)
قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر یعنی عدالتی اصلاحات کا بل 2023 اتفاق رائے سے منظور کر لیا ہے۔
بدھ کو منظور ہونے والے اس بل کے تحت کسی بھی معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز کریں گے۔
 قومی اسمبلی نے وکلا بہبود و تحفظ بل 2023 بھی منظور کر لیا ہے۔
بل کی منظوری سے پہلے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت تحمل کا مظاہرہ کرتی رہی یہاں تک کہ عدالت کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ ملک کی چھ بار کونسلز نے اس بل کی حمایت کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کیا مسئلہ ہے کہ ہر بار تین ججوں کو بینچ میں بٹھا کر فیصلے صادر کیے گئے۔ چار سال پہلے فل کورٹ میں یہ ایجنڈا تھا اور اس پر بحث بھی ہوئی۔‘
’ابہام دور کرنے کے لیے پارلیمان اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے گا۔ ادارے شخصیات سے نہیں نظام سے مضبوط ہوتے ہیں۔ یہ قانون سازی آئین پاکستان کے مطابق ہے۔‘
اس سے قبل منگل کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عدالتی اصلاحات کے مسودے کی منظوری دی گئی۔
وفاقی کابینہ کا اجلاس منگل کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں عدالتی اصلاحات کا جائزہ لیا گیا۔
 عدالتی اصلاحات کے بل میں تجویز دی گئی ہے کہ ’سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج ازخود نوٹس کا فیصلہ کریں گے۔‘

مسودے کے مطابق ازخود نوٹس کے خلاف 30 روز کے اندر اپیل کا حق بھی دیا جائے گا (فوٹو: قومی اسمبلی)

مسودے کے مطابق ازخود نوٹس کے خلاف 30 روز کے اندر اپیل کا حق بھی دیا جائے گا اور اپیل دائر ہونے کے بعد اسے 14 دن کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنا ہوگا۔
مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ بینچ کی تشکیل بھی چیف جسٹس پاکستان اور دیگر دو سینیئر ترین ججز مل کر کریں گے۔
کابینہ کی منظوری کے بعد منگل ہی کو قومی اسمبلی نے سیاسی معاملات میں عدلیہ کی ’بے جا مداخلت‘ کے خلاف قرارداد منظور کی۔
قرارداد وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایوان میں پیش کی۔ قرار داد میں کہا گیا کہ ’یہ ایوان عدالیہ کی مداخلت کو سیاسی عدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے۔ یہ ایوان چار ججز کے فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے توقع کرتا ہے اعلیٰ عدلیہ سیاسی و انتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی۔‘

شیئر: