Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے مالیاتی اختیارات، ’ترمیم میں ذرا سی غلطی‘

کشمیر کے وزیرخزانہ عبدالماجد خان نے وزیراعظم تنویر الیاس خان کے ساتھ بیٹھ کر ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھا (فائل فوٹو: پی آئی ڈی، کشمیر)
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کے محکمے کے رُولز آف بزنس میں ایک حالیہ ترمیم کے بعد یہ بحث ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے کہ اسلام آباد کی جانب سے کشمیر کی حکومت کے اختیارات کو محدود کیا جا رہا ہے۔ 
2018ء میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے 13ویں ترمیم منظور کی تھی جس کے بعد بہت سارے مالیاتی اختیارات کشمیر کی حکومت کو حاصل ہو گئے تھے۔ اس ترمیم کے بعد اسلام آباد میں قائم آزاد جموں و کشمیر کونسل نامی ادارے کے ٹیکس جمع کرنے کے اختیارت تقریباً ختم ہو گئے تھے۔
آزاد جموں کشمیر کونسل سے کشمیر کی حکومتوں کو یہ دیرینہ شکایت تھی کہ وہ ایک متوازی اسمبلی کے طور پر کام کرتی ہے تاہم 13ویں ترمیم کے بعد اس وقت کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کونسل کے اختیارات محدود کرنے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ 
اب سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن سے رُولز آف بزنس میں ہونے والی ایک تازہ ترمیم کے بعد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا پاکستان کی وفاقی حکومت بتدریج کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی جانب تو نہیں بڑھ رہی۔ 

معاملے کی حقیقت کیا ہے؟ 

یہ بحث اس سمری کے بعد شروع ہوئی جو کشمیر کے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے صدرِ ریاست کو 13 جنوری 2023ء کو بھیجی۔ اس سمری میں آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کے رولز آف بزنس 1986ء میں ترمیم کی تجویز دی گئی۔ 
بعدازاں یہ سمری 19 جنوری کو وزیراعظم سیکریٹریٹ میں وصول کی گئی اور پھر اس کی منظوری دے دی گئی۔ 

’وزیرِ خزانہ کو کَٹ ٹُو سائز کرنے کوشش ہے‘

سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن سے رولز آف بزنس 1886 میں ہونے والی حالیہ ترمیم کے حوالے سے اُردو نیوز کے رابطہ کرنے پر کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن اور مسلم لیگ نواز کے رہنما احمد رضا قادری نے بتایا کہ ’کشمیر میں نافذ ایکٹ 1974ء کے آرٹیکل 50 اے کے تحت آڈٹ کے معاملات آڈیٹر جنرل آف آزادکشمیر کو دیکھنا ہوتے ہیں لیکن روایتی طور پر یہ اضافی چارج آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے پاس ہی ہوتا ہے۔‘ 
’یہاں بنیادی طور پر دو محکمے ہیں۔ ایک آڈٹ ہے جبکہ دوسرا اکاؤنٹس ہے۔ پاکستان کے تمام  صوبوں میں اکاؤنٹس کا محکمہ وزارت خزانہ کے سیکرٹری کو جوابدہ ہوتا ہے۔ آڈٹ کا محکمہ آڈیٹر جنرل آف پاکسان کے ماتحت ہوتا ہے۔‘ 
احمد رضا قادری نے بتایا کہ ’اب یہاں ہوا یہ ہے کہ آڈٹ کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹس کے محکمے کو بھی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے تحت بھیج دیا گیا ہے۔حالانکہ اکاؤنٹس کا محکمہ سیکریٹری خزانہ کے تحت ہوتا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’دراصل یہ حالیہ اقدام وزیر خزانہ عبدالماجد خان کو وزیراعظم کے اعصاب پر سوار طاقتور بیوروکریسی کی جانب سے ’کَٹ ٹُو سائز‘ کرنے کا اقدام ہے۔‘ 

’اکاؤنٹس میں کچھ خالی پوسٹیں ہیں‘ 

کشمیر کے سینیئر بیوروکریٹ سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری فرحت علی میر کا بھی یہی خیال ہے کہ اس اقدام کے اسباب داخلی ہیں، یہ اسلام آباد کی جانب سے اختیارت کی توسیع کی خواہش کا معاملہ نہیں ہے۔ 
فرحت علی میر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایکٹ 1974ء میں 13ویں ترمیم سے پہلے آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کا محکمہ کشمیر کونسل کے پاس تھا۔ 13ویں ترمیم کے بعد یہ امور خاص طور پر اکاؤنٹس کے شعبے کے معاملات پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے محکمہ مالیات کے پاس چلے گئے تھے۔‘ 
’اب رولز آف بزنس میں ترمیم کے بعد اکاؤنٹس کے شعبے کے اختیارات بھی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو دیے گئے ہیں۔‘

صدر کو بھیجی گئی سمری میں 18 مارچ 2023 کی تاریخ درج ہے (فوٹو: ملک عبدالحکیم)

انہوں نے کہا کہ ’ کشمیر کونسل نے 2005ء میں اکاؤنٹس اینڈ آڈٹ کو دو الگ الگ شعبوں میں بدل دیا تھا۔ پھر 2018 میں 13 ویں آئینی ترمیم آ گئی۔ لیکن اس سارے عرصے میں  آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہ اکاؤنٹس کے شعبے کے انتظامی اختیارات اپنے تحت لیں۔‘ 
فرحت علی میر نے بتایا کہ ’اصل معاملہ یہ ہے کہ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کے محکمے میں بڑی تعداد میں خالی پوسٹیں ہیں جن پر بھرتیاں ہوںا ہیں۔ بیوروکریسی کے کچھ افراد نہیں چاہتے کہ ان تقرریوں پر وزیر خزانہ اثرانداز ہوں۔ اس جھمیلے سے بچنے کے لیے یہ سب کیا گیا ہے۔‘ 

’ترمیم میں تھوڑی سی غلطی ہو گئی‘ 

اردو نیوز نے اس حوالے سے کشمیر کے وزیرخزانہ عبدالماجد خان سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی۔  
تاہم وزیرخزانہ عبدالماجد خان نے یکم اپریل کو وزیراعظم تنویر الیاس خان کے ساتھ ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ تھا کہ ’یہ تأثر غلط ہے کہ حکومت 13 ویں ترمیم میں حاصل اختیارات سے دست بردار ہونے جا رہی ہے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’پورے پاکستان میں آڈٹ آزادانہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنا آڈٹ خود نہیں کرتی۔ اس کے لیے یہاں ایک تصحیح درکار تھی جو کر دی گئی لیکن اس کے ساتھ ایک تھوڑی سی غلطی یہ آ گئی کہ اس رُولز آف بزنس کی ترمیم میں اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ بھی آ گیا۔‘ 
’جب وزیراعظم صاحب کے نوٹس میں یہ بات آئی تو انہوں نے فوراً حکم جاری کر دیا کہ کہ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ محکمہ خزانہ کے ساتھ جڑا ہوا شعبہ ہے۔ اور یہ ہمیشہ حکومت آزادکشمیر کے تحت ہی رہے گا۔‘ 
وزیر خزانہ عبدالماجد خان کے دعوے کے بعد اب تک وزیراعظم آفس کا کوئی ایسا حکم نامہ سامنے نہیں آیا جس میں اکاؤنٹس کے شعبے کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے واپس کشمیر کی وزارت خزانہ کے تحت لانے کی بات کی گئی ہو۔ 

شیئر: