Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مطالعے سے انسان تدبر سیکھتا ہے

شہنشاہ جہانگیر نے اپنے دروازے پر ایک ایسا کنڈا یا زنجیر لگوا دی تھی کہ کوئی بھی اسے کھینچے تو شہنشاہ کو خبرپہنچ جاتی تھی
 - - - - - - -  - - - - - -
اُمِ مزمل ۔ جدہ
- - - -  - - - - - - -
وہ لائبریری سے واپسی پر بالکل خاموش تھی۔ وہ ناراضی سمجھ کر اپنی طرف سے معذرت کرتے ہوئے کہنے لگا، تم میرے پندرہ منٹ دیر سے آنے پر ناراض ہورہی ہو جبکہ اگر تم اس ٹریفک میں گاڑی چلاؤ تو اتنا وقت اور لگا دو جتنا کہ میں نے لگایا ہے لیکن وہ ہنوز خاموش تھی۔ اب تو اسے یہی لگا کہ کوئی ڈانٹ پڑی ہے لائبریرین کی ۔ جب ہی اندازہ لگاتے ہوئے کہا، یہ اور بات ہے کہ لائبریرین نے تمہیں کسی بات پر کچھ کہا ہوگا اور تم سارا غصہ مجھ پر اتار رہی ہو۔ وہ اب زیادہ دیر خاموش نہیں رہ سکتی تھی، غصے سے بولی، بھائی ! آپ کو پتہ ہے کہ کیسے کیسے مغربی مصنفوں نے ہمارے بہترین حکمرانوں کے بارے میں اپنی طرف سے غلط تاریخی حوالے پیش کئے ہیں۔
وہ حیرانی سے پوچھنے لگا یعنی اتنی دیر سے جو میں سمجھ رہا تھا کہ دیر سے آنے پر ناراض ہو تو ایسی کوئی بات نہیں ؟ تم کسی اور ہی بات پر غصہ میں ہو،اور یہ کون سے حکمران ہمارے اتنے اچھے گزرے ہیں کہ ہماری ہمشیرہ صاحبہ یوں ان کے بارے میں لکھے جانے پر ناراض ہورہی ہیں؟ وہ تنک کر بولی، آپ کو بھی عدل جہانگیری کی خوب خبر ہے اور ہم سب کو معلوم ہے کہ شہنشاہ جہانگیر نے اپنے دروازے پر ایک ایسا کنڈا یا زنجیر لگوا دی تھی کہ کوئی بھی اسے کھینچے تو شہنشاہ کو خبرپہنچ جاتی تھی اور وہ سائل کی دادرسی کیلئے اسی وقت حاضر ہوجاتا تھا۔ تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے اسکی ساری کارروائی اپنی آنکھوں سے دیکھتی رہی ہو۔ کیا تم اتنے پرانے زمانے کی ہو، وہ شرارت سے اسے اسکی عمر کی طرف متوجہ کرنے لگا۔ وہ دھوپ کی تمازت اور گرمی میں بھی اس بات پر غصہ نہ کرسکی کیونکہ جس بات پر اسکا موڈ خراب تھا، وہ اسکی نظر میں کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس لئے کہنے لگی کہ ’’بھائی جان! آپ کو معلوم ہے ،اس مغربی مصنف نے کیا لکھا ہے اپنی کتاب میں جس کو وہ تاریخ کی حقیقت بتانے کیلئے تحقیقی مقالے کا درجہ دینا چاہتا ہے ۔
وہ اب مکمل طور پر متوجہ ہوکر پوچھنے لگا، اس نے کیا لکھا ہے؟ مصنف نے لکھا ہے کہ شہنشاہ جہانگیر کے ایک استاد ان کے پاس آئے بلکہ روزانہ آتے تھے اور کہتے تھے کہ جب میں نے اسے بچپن میں تعلیم دی ہے تو اسکا بدلہ تو ملنا چاہئے۔ مجھے بادشاہ نہ سہی، وزیریا مشیر ہی بنا دینا چاہئے۔ اس قسم کی گفتگو اس میں لکھی ہے کہ جب جہانگیر کے استاد نے وزارت کا مطالبہ کیا تو جہانگیر نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے مجھے پڑھایا ہی کیا ہے۔ صرف اخلاقی تعلیم دی ہے اور کہہ دیا کہ تمام علم اسی میں موجود ہے۔ یہ تو مجھے بتایا ہی نہیں کہ پڑوسی ملک میں کون سی زبان بولی جاتی ہے اور ان کے یہاں کے سکے کو کیا کہتے ہیں۔ اس طرح کی معلوماتی باتیں تو کچھ بھی نہیں بتائیں۔ بھائی جان آپ سوچ سکتے ہیں کہ جس استاد کی تربیت ایسی شاندار تھی کہ انکا شاگرد دنیا بھر میں عدل و انصاف کا بول بالا کرنے والا بنا،کیا وہ اتنی معمولی بات بھی کرسکتے ہیں؟ وہ اطمینان سے اسکی تمام باتیں سننے کے بعد کہنے لگا کہ تم لائبریری جاتی ہو، مجھے لانا، لے جانا پڑتا ہے۔ میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ تمہارے لئے کالج کی پڑھائی کافی ہے ۔ہفتے میں 3 مرتبہ لائبریری آنے کی زحمت کرنے کی کیا ضرورت ہے لیکن آج میں سمجھ سکتا ہوں کہ مطالعے سے انسان تدبر سیکھتا ہے، اپنے اسلاف کی بہترین تاریخ کو اجاگر کرنے کیلئے مضامین لکھ سکتا ہے۔ اس لئے اکثریت کو لائبریری سے استفادہ کرتے رہنا چاہئے۔ وہ عدل جہانگیر پر خود بھی ایک مضمون لکھنے کا ارادہ کرچکی تھی ۔ جاننا چاہئے کہ سنہری دور کا مطالعہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔

شیئر: