Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظر ثانی بل 2023 منظور

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’پارلیمنٹ نے کبھی کسی ادارے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کی۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظر ثانی بل 2023 منظور کر لیا گیا ہے۔ بل میں تجویز دی گئی کہ ’آرٹیکل 184 کے تحت فیصلوں اور احکامات پر نظرثانی کی درخواستوں پر فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ تشکیل دیا جائے۔‘
قومی اسمبلی میں آرٹیکل 184/3 (چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار) میں مزید ترمیم کا بل بھی پیش کیا گیا ہے جس میں ترمیم کے ذریعے اپیل کے لیے 30 کے بجائے 60 دن کا وقت تجویز کیا گیا ہے۔
جمعے کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت شروع ہوا۔
سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظر ثانی بل 2023 شزا فاطمہ خواجہ نے پیش کیا۔ بل میں تجویز دی گئی کہ ’آرٹیکل 184 کے تحت فیصلوں اور احکامات پر نظرثانی کی درخواستوں پر فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ تشکیل دیا جائے۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات پر نظر ثانی بل 2023 میں تجویز دی گئی کہ ’نظرثانی کی درخواست دینے والے کو اپنی مرضی کے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔‘ یہ بھی کہا گیا کہ ’فیصلہ یا آرڈر جاری ہونے کے دو ماہ کے اندر نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا سکے گی۔‘
بل میں دی گئی تجویز کے مطابق ’قانون کی منظوری سے قبل 184 تین کے تحت آنے والے فیصلوں اور احکامات پر بھی اطلاق ہو گا۔‘
پرانے فیصلوں پر نظر ثانی کی درخواستیں قانون کے اطلاق کے 30 دن کے اندر دائر کی جا سکیں گی۔‘
قومی اسمبلی اجلاس میں مجموعی ضابطہ دیوانی 1908 ترمیم کا بل بھی منظور ہوا جسے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا۔
قومی اسمبلی نے نیب ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی منظور کر لیا جسے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا۔

وزیر قانون نے کہا کہ ’یہ بڑا واضح بل ہے، اس کو قانون بنایا جانا ضروری ہے‘ (فوٹو: قومی اسمبلی)

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنٹ نے کبھی کسی ادارے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کی، جبکہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو ہی چیلنج کیا گیا۔‘
چیف جسٹس کے اختیارات کے بارے میں بل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’یہ بڑا واضح بل ہے، اس کو قانون بنایا جانا ضروری ہے۔ یہ عوام کے حق انصاف کو بہتر طریقہ سے فراہم کرنے کے لیے ہے۔‘
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ’سپریم کورٹ اختیارات کا مرکز ایک فرد کو رکھنا چاہ رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں یہ اختیارات ادارے کے اندر ہو۔ وہ سیاست میں آج کل لیڈنگ رول ادا کر رہے ہیں۔‘
ہم کسی کے علاقے میں نہیں گھس رہے لیکن ہمارے ادارے کے اختیارات میں بھی کوئی نہ گھسے۔ یہ قانون سازی جو ہم کر رہے ہیں اہم ہے۔‘

شیئر: