Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایسا لگا میں مر چکی ہوں‘، جہاز سے گر کر ہفتوں جنگلوں میں بھٹکنے والی لڑکی کیسے بچی؟

جولیان کوئپکے نے کئی روز جنگل میں گزارے (فوٹو: ہسٹری ڈیفائنڈ)
دورانِ پرواز جنگلوں پر سے گزرتے ہوئے کسی کے دل میں بھی خیال آ سکتا ہے کہ اگر وہ نیچے گر جائے تو کیا ہو گا؟ مگر جس کو ساتھ حقیقی زندگی میں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا  انہوں نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا۔
یہ ناقابل یقین واقعہ ایک 17 سالہ لڑکی کا ہے جو اپنی ماں کے ساتھ اس جہاز میں سوار تھی جو امازون کے جنگلوں میں گر کر تباہ ہوا۔ جہاز پر سوار تمام لوگ مر گئے ماسوائے اس لڑکی کے۔ آگے کے حالات کسی سنسنی خیز فلم سے کم نہیں۔
ہسٹری ڈیفائنڈ ویب سائٹ پر اس واقعے کی پوری روداد بیان گئی ہے جبکہ برطانوی اور امریکی میڈیا سمیت کئی اداروں نے ان کے انٹرویوز بھی شائع کیے۔ جن سے اس مضمون کی تیاری میں مدد لی گئی ہے۔

جہاز کیوں گرا؟

1971 میں جولیان کوئپکے ہائی سکول سے فارغ ہوئیں تو ماں کے ہمراہ والد کے پاس جانے کا پروگرام بنایا جو روکلپا میں محکمہ جنگلات میں زوالوجسٹ کے طور پر ملازمت کرتے تھے۔
وہ پیرو کے شہر لائما کے ایئرپورٹ سے لانسا کی فلائٹ نمبر 508 سے روانہ ہوئے۔
اڑان بھرنے کے بعد جہاز ایک گھنٹے تک معمول کے مطابق پرواز کرتا رہا۔ وہ 3000 فٹ کی بلندی پر تھا جب موسم خراب ہونا شروع ہوا اور تیز بارش کے ساتھ ہوا بھی شروع ہو گئی جس سے جہاز ڈولنا شروع ہوا اور مسافر دہشت زدہ ہو گئے۔

کئی سال بعد جولیان نے جنگل کے انہی مقامات پر گئیں جہاں انہوں نے زندگی کی جنگ لڑی تھی (فوٹو: ہسٹری ڈیفائنڈ)

ماں بیٹی نے ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ اس سے اگلا لمحہ مزید خوفناک تھا کیونکہ جہاز آسمانی بجلی کی لپیٹ میں آ گیا، شیشے ٹوٹتے چلے گئے اور زمین تک پہنچنے سے قبل ہی کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

جولیان کیسے بچیں؟

شدید دھوئیں اور گڑگڑاہٹ سے جولیان بے ہوش ہو گئیں تاہم جب ہوش آیا تو ان کی سیٹ ایک درخت کی شاخوں میں پھنسی ہوئی تھی جبکہ وہ خود بیلٹ کے ذریعے اسی سیٹ میں جکڑی ہوئی تھیں اور اسی کی وجہ سے نیچے گرنے سے محفوظ رہی تھیں۔
انہیں وہ لمحات تیزی سے یاد آئے کہ وہ تو جہاز میں تھیں۔ انہوں نے خود کو سنبھالا، وہ زخمی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ پھر ہوش ہو گئیں اور کئی گھنٹے بعد ہوش میں آئیں تو حالت قدرے بہتر تھا۔
انہوں نے ذہن کو پرسکون کرتے ہوئے سوچا کہ آگے کیا کرنا ہے اور نیچے دیکھا تو ہر طرف بڑی بڑی گھاس، درخت اور نہر نما پانی کے جوہڑ دکھائی دیے۔ تب انہیں خیال آیا کہ یہ امازون کا جنگل ہے اور جب جہاز حادثے کا شکار ہوا تو اس کے اوپر ہی تھا۔

جولیان اسی جہاز کے باہر موجود ہیں جو بعدازاں حادثے کا شکار ہوا (فوٹو: اے پی)

ان کے ہاتھ اور کندھے میں شدید درد ہو رہا تھا تاہم انہوں نے کسی نہ کسی طرح سے سیٹ بیلٹ کھول دیا اور وہ نیچے اترنے میں کامیاب ہوئیں تو انہیں احساس ہوا کہ وہ زخمی بھی ہیں۔ قریب ہی ایک بیگ بھی پڑا تھا جو شاید کسی مسافر کا تھا، انہوں نے اٹھا لیا اس میں کچھ بسکٹ اور ٹافیاں وغیرہ بھی تھیں۔

میں زندہ ہوں؟

جولیان نے کئی انٹرویوز میں بتایا کہ جہاز کریش ہونے کے بعد درختوں میں لٹکے ہوئے انہیں یہ احساس بھی ہوا کہ شاید وہ مر چکی ہیں تاہم بیلٹ سے آزاد ہو کر نیچے وہ بارش کے کھڑے پانی میں گریں جو انہیں بہت ٹھنڈا لگا اور انہوں نے اپنے آپ سے کہا کہ ’میں زندہ ہوں۔‘
جولیان بتاتی ہیں کہ ہوش میں آنے کے بعد جو پہلا لفظ ان کی زبان سے نکلا وہ ماں تھا۔
’میں نے زور زور سے اپنی ماں کو آوازیں دیں، مگر اس کے جواب میں جنگل کی عجیب سی سرسراہٹ سنائی دیتی رہی۔ میں بہت اکیلی تھی۔‘
جولیان کہتی ہیں کہ جنگل کسی چھتری کی طرح گھنا تھا۔ میں نے کئی بار جہازوں کی آوازیں سنیں جو شاید گرنے والے جہاز کا ملبہ ڈھونڈ رہے تھے میں نے بھاگ بھاگ کر انہیں آوازیں دینے کی کوشش کی مگر جنگل شدید گھنا ہونے کی وجہ سے کسی کی نظر میں نہیں آئی۔

جولیان والدہ کے ہمراہ والد سے ملنے روکلپا جا رہی تھیں (فوٹو: جولیان، انسٹاگرام)

وہ بتاتی ہیں کہ سفر کے وقت انہوں نے سلیولیس منی لباس اور سینڈل پہن رکھے تھے۔ حادثے کے بعد لباس بری طرح سے پھٹ چکا تھا جبکہ ایک سینڈل بھی کہیں کھو چکا تھا۔
بہرحال کئی خدشات دل میں لیے انہوں نے ایک طرف کو چلنا شروع کیا۔
وہ بتاتی ہیں انہیں کئی مقامات پر سانپ دکھائی دیے تاہم وہ آگے بڑھتی چلی گئیں پھر انہیں ایک ایسی ندی ملی جو ایک طرف کو جا رہی تھی۔ وہ اس کے اندر اتر گئیں اس کا پانی گھٹنوں تک تھا اور آگے چلنا شروع کیا۔
وہ بیگ ان کے بہت کام آیا بھوک لگنے پر بسکٹ اور ٹافیاں کھا لیتیں مگر وہ زیادہ دیر نہ چل سکیں اور ختم ہو گئیں جبکہ پانی اسی ندی کا پیتی رہیں۔
ان کے ذہن میں یہی امید تھی کہ یہ ندی پانی کے کسی بڑے ذخیرے تک پہنچے گی اور وہاں انہیں کوئی نہ کوئی مدد کے لیے مل جائے گا۔

جولیان کہتی ہیں کہ زخمی ہونے کی وجہ سے گِدھوں نے ان کا پیچھا بھی کیا (فوٹو: گیٹی امیجز)

اس دوران شام ہو گئی مگر چلتی رہیں اور اندھیرا گہرا ہونے تک وہ کافی تھک چکی تھیں اور کافی ٹھنڈ بھی لگ رہی تھی تاہم وہ ایک درختوں کے جھنڈ میں ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور کب نیند کی آغوش میں چلی گئیں پتہ ہی نہیں چلا۔ پھر آنکھ کھلی تو سورج اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا۔
’سورج کو دیکھ کر مجھے زندگی کا احساس ہوا اور میں نے نئے حوصلے کے ساتھ چلنا شروع کیا۔‘

جب گِدھ جمع ہونا شروع ہوئے

جولیان بتاتی ہیں کہ اچانک انہیں بڑے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی تو وہ گِدھ تھے جو ادھر ادھر اڑ رہے تھے اور منہ سے عجیب سی آواز نکال رہے تھے۔
انہیں یہ بات سمجھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا کہ یہ گوشت کھانے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں کیونکہ جہاز گرنے سے کافی تعداد میں لوگ مرے ہوں گے اور لاشیں یہیں کہیں موجود ہوں گی۔
 ’تیزی سے آگے بڑھی تو ایسی تین لاشیں ملیں جن کے چہرے مسخ تھے اور لباس کے ٹکڑوں سے ایک لاش عورت کی لگ رہی تھی۔ جس پر ذہن میں یہ خوفناک خیال آیا کہ کہیں وہ ماں تو نہیں، تاہم قریب جا کر اندازہ ہوا کہ وہ کوئی اور خاتون ہیں کیونکہ اس نے نیل پالش لگایا ہوا تھا جبکہ سفر کے وقت میری ماں کے ناخن سادہ تھے۔‘
وہ انتہائی لاغر ہو گئی تھیں، ان کا گزارہ درختوں کے پتوں پر تھا۔

جولیان کی عمر اب 69 برس ہے اور پیرو میں رہتی ہیں (فوٹو: جولیان، انسٹاگرام)

پھر ایک جھونپڑی ملی

جولیان کہتی ہیں کہ ایک موقع پر ان کی حالت عجیب ہو گئی اور دکھائی دیا کہ سامنے ایک جھونپڑی ہے تاہم جب اس کو چھوا تو وہ ایک بہت بڑے جہاز میں بدل گئی جس پر احساس ہوا یہ ہیلوسینشن ہے اور سر کو زور زور سے جھٹکے دیے۔
تھوڑی دیر بعد پھر رات ہو گئی جو ندی کے کنارے پر گھاس کے اوپر ہی گزاری اور اس کے بعد کے دن اور راتیں بھی کچھ ایسے ہی گرتے پڑتے اور چلتے ہوئے گزریں۔

فرشتوں کی آوازیں

تقریباً ایک فٹ کی گھاس میں جب آنکھ کھلی تو کچھ آوازیں سنیں ایسا لگا جیسے فرشتے بول رہے ہوں۔
’مجھے کچھ لوگ نظر آئے جن کے پاس کشتی بھی تھی مگر میں اس لیے آگے نہیں بڑھی کہ یہ وہی تخیلاتی تصور ہے اور آگے جاؤں گی تو سب کچھ غائب ہو جائے گا۔ تاہم اس دوران ان میں سے ایک شخص کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ میری طرف بھاگے۔‘

صحت مند ہونے کے بعد جولیان کئی بار امازون جنگل میں گئیں (فوٹو: ہسٹری ڈیفائنڈ)

’میں پانی اور کیچڑ میں بری طرح لتھڑی ہوئی تھی اور بات کرنے سے قاصر تھی۔ مجھے یاد ہے ان میں سے ایک نے زور سے کہا کہ یہ جل پری ہے۔‘
جولیان نے مختصراً اپنی کہانی بتائی اور وہ مدد پر تیار ہو گئے، کھانے کو سامان بھی دیا اور زخموں کی مرہم پٹی بھی کی۔
اگلے روز والد سے ملاقات ہوئی تو اسی وقت والدہ کی لاش ملنے کی خبر ٹی وی پر چلی۔
’اور ہم ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے رہے۔‘
 
جولیان نے 11 روز امازون کے جنگل میں گزارے اب ان کی عمر 69 سال ہے اور وہ پیرو میں رہتی ہیں۔

شیئر: