Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین کے کام پر پابندی: کابل سے انخلا اقوام متحدہ کے لیے ’افسوسناک‘ ہو گا

ایکم ستائنر کے مطابق اقوام متحدہ کے اہلکار خواتین کے کام کے حوالے سےطالبان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے سربراہ نے کہا ہے کہ اگر ان کا ادارہ خواتین کے کام کے حوالے سے طالبان کو قائل نہ کر سکا تو اقوام متحدہ مئی میں افغانستان سے انخلا کا ’افسوسناک‘ فیصلہ لینے کے لیے تیار ہے۔
منگل کو یو این ڈی پی کے ایڈمنسٹریٹر ایکم ستائنر نے امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے اہلکار اس امید پر افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں کہ وہ اس ماہ خواتین کو اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اس وقت ہم جہاں ہیں وہاں اقوام متحدہ کے پورے نظام کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا اور وہاں کام کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ لیکن یہ بنیادی اصولوں اور انسانی حقوق پر بات چیت سے متعلق نہیں۔‘
ایکم ستائنر نے کہا کہ طالبان نے افغان خواتین کو کچھ شعبوں میں کام کی اجازت دی ہے تاہم منگل کو جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کو مزید خواتین کے کام کی اشد ضرورت ہے۔
کابل پر کنٹرول کے بعد طالبان نے اپنے سابقہ دور کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند حکمرانی کے وعدے کیے تھے تاہم اگست 2021 میں کابل پر کنٹرول کے بعد سے سخت اقدامات نافذ ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں طالبان کے ایک حکم نامے کے تحت افغان خواتین کو اقوام متحدہ میں کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ’اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کرنا ہمارے ملک کا ’اندرونی مسئلہ‘ ہے اور ہمارے فیصلوں کا احترام کیا جائے۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔

شیئر: